صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
وبرباد ہو گیا، پھرکوئی حلوائی اس کو مربّہ بنانے نہیں لے گیا، البتہ وہاں ایک ہندوبنیا آیا اور جتنے سوکھے ہوئے بے تربیت آملے پڑے تھے ان کے منہ پر جھاڑومارتا ہے اور بورے میں بھر لیتا ہے اور لے جا کر دکان میں رکھتا ہے پھر اس کو کوٹ کر کنستر میں بھرتا ہے۔ مربّہ آملہ شیشے کے مرتبان میں ہے اور یہ ٹین کے کنستر میں ہے۔ اس کے بعد جب کسی کو پاخانہ نہیں ہوتا تب حکیم اس کو لکھتا ہے کہ سفوف ترپھلہ یعنی آملہ بقدرِ کف دست یعنی جتنا ہاتھ میں آئے بوقت خواب از آب گرم بخورند گرم پانی سے کھالے تو پاخانہ صاف ہوجائے گا۔ تو تربیت نہ کرانے سے اس کو بھنگی اور جمعداری یعنی پاخانہ دھکیلنے کا کام دیا گیا اور وہ دافعِ قبض ہوا،اور وہ مربّہ آملہ دل کی طاقت کے لیے کام آیا تو دونوں میں کتنا فرق ہو گیا۔ تو اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ نے تزکیۂ نفس کو فرض فرما دیا۔ اورتزکیہ فعلِ متعدی ہے، انسان خود سے تزکیہ نہیں کر سکتا، تزکیہ کرانے کے لیے کوئی مزکِّی ہونا چاہیے جیسے دنیا میں ایسا کوئی مربّہ نہیں جس کا کوئی مربی نہ ہو، ایسے ہی بغیر بزرگوں اور اﷲ والوں کے اصلاحِ نفس نہیں ہوتی چاہے وہ کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ ہو!۔ میں آپ لوگوں سے ایک سوال کرتا ہوں کہ ایک ڈاکٹر ہے جو ہزار مریضوں کے گردوں کی پتھری نکال چکا ہو لیکن وہی ڈاکٹر جس سے ہزاروں مریض اچھے ہو گئے اس کے گردے میں پتھری ہے وہ اپنی پتھری خود کیوں نہیں نکال سکا کیوں کہ ڈاکٹر اپنے کو بے ہوش تو کر سکتا ہے مگر بے ہوشی کے بعد پھر چاقو چلا کر پیٹ پھاڑ کر گردوں سے پتھری کیسے نکال سکتا ہے؟ اس لیے عالم اصلاح کے لیے دوسروں کا محتاج ہے کیوں کہ اگر اس کے اندر تکبر کی بیماری ہے یا حسینوں سے نظر بازی کی بیماری ہے یا گناہ کی کوئی اور عادت ہے تو وہ خود اپنی بیماری کا علاج نہیں کر سکتا۔ کیوں؟ اس لیے کہ قاعدہ کلیہ ہے رَأیُ الْعَلِیْلِ عَلِیْلٌ بیمار کی رائے بھی بیمار ہوتی ہے۔ آپ تاریخ دیکھ لیجیے! بڑے بڑے علماء نے اپنی اصلاح کے لیے اﷲ والوں سے رجوع کیا ہے۔ مولانا قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ بانیٔ دیوبند کا علم کتنا تھا،