صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
آملہ کو کتنی عزت ملی! لیکن اختر اعلان کرتا ہے، للکارتا ہے،چیلنج کرتا ہے کہ دنیا میں کوئی مربّہ ایسا نہیں جس کا کوئی مربی نہ ہو،آپ ذرا دکاندار سے کہہ کر دیکھیں کہ مجھے آملہ کا وہ مربّہ دو جس کا کوئی مربی نہ ہو۔ آہ! میرے شیخ مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم مجھے رکشہ میں لے کر ایک حکیم صاحب کی عیادت کے لیے ہردوئی گئے، وہاں دو مکان تھے: ایک مکان کے سامنے جہاں مالی تھا وہاں گلاب اور چنبیلی کے پھول قطار سے لگے ہوئے تھے اور بہترین صفائی ستھرائی تھی اور دوسرے مکان کے سامنے گدھے کی لید ، گھوڑے کی لید اور بہت سی غلاظتیں تھیں تو میرے شیخ نے فرمایا کہ دیکھو جہاں مالی ہے وہ مکان کیسا صاف ستھرا ہے اور پھول بھی نظر آرہے ہیں اور جہاں مالی نہیں ہے وہاں گدھوں، گھوڑوں اور کتوں کا پاخانہ پڑا ہوا ہے اور پھول کا نام ونشان تک نہیں ہے۔ پھر حضرت نے فرمایا کہ جس کے دل پر کوئی اﷲ والا مالی ہوتا ہے، باغبان ہوتا ہے، مربی ہوتا ہے اس کے دل کو بُری بُری گندی خواہشات سے پاکی نصیب ہوتی ہے، گھوڑے، گدھے کی لید کے اخلاقِ رذیلہ وہاں نہیں رہتے اور اﷲ پاک کی محبت اور خشیت اور تقویٰ کے پھول نظر آتے ہیں اور اﷲ کی ولایت اور دوستی کا باغ نظر آتا ہے، اور جس کے دل کی زمین پر کوئی مربی نہیں ہوتا اس کا یہی حشر ہوتا ہے جیسا اس زمین کا ہے جس کا کوئی مالی نہیں ہے، وہاں کانٹے پڑے ہوئے ہیں اور گدھے، گھوڑے اور کتے کے پاخانے اور گندگی پڑی ہوئی ہے۔ تو ایک آملہ جو تربیت کی برکت سے مربّہ بنا اس کی قیمت کتنی بڑھ گئی! اور اس کے رکھنے کی جگہ بھی شیشہ کا شاندار مرتبان بنا۔ اب دوسرے آملہ کا حال سنو۔ اس نے کہا کہ مجھ سے پیروں کے یہ ناز ونخرے برداشت نہیں ہوتے، مجھے آزادی پسند ہے، میں پیری مریدی کا قائل نہیں ہوں، مجھے مربی وربی نہیں چاہیے، میں مربّہ بنوں یا نہ بنوں، مجھ کو آزادی محبوب ہے۔ تو وہ آملہ جو درخت سے ہرا ہرا گرا تھا سورج کی شعاعوں سے اس کا منہ کالا ہو گیا، سائز میں بھی سکڑ کر چھوٹا ہو گیا، صورتًا و سیرتًا تباہ