صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
کے مولانا عبدالحمید صاحب انگریزی میں اس کا ترجمہ کرتے رہے تو گائیڈ جو ہوٹل کی طرف سے نمائندہ تھا ہمارے ساتھ تھا، اس نے کہا کہ میں نے زندگی میں داڑھی والوں کا ایسا قافلہ نہیں دیکھا، اور اﷲ کا اور اﷲ کی محبت کا ایسا تذکرہ زندگی میں نہیں سنا۔ تو اس سفر میں جو لوگ میرے ساتھ تھے ذرا ان سے پوچھو کہ کیسا مزہ آیا تھا؟ جب ان کے غلاموں کے ساتھ یہ لطف آیا تو اﷲ والوں کے ساتھ سفر میں کیا مزہ آئے گا! اسی لیےکہتا ہوں کہ اﷲ ملتا ہے اﷲ والوں سے اور ان کے غلاموں سے، ورنہ شیطان بہکا دیتا ہے کہ اب حکیم اجمل خان دہلی والے کہاںر ہے؟ ان معمولی حکیموں سے ہم کیا علاج کرائیں؟ لیکن اگر حکیم اجمل خان کے شاگرد مل جائیں تو ان کو حقارت سے مت دیکھو۔ اسی طرح اسے بھی اﷲ والا سمجھو جس نے اﷲ والوں کی غلامی کی ہے۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ امرود ملتا ہے امرود والوں سے، کپڑا ملتا ہے کپڑے والوں سے، مٹھائی ملتی ہے مٹھائی والوں سے، کباب ملتا ہے کباب والوں سے، اور اﷲ ملتا ہے اﷲ والوں سے۔ دیسی آم کو ایک لاکھ کتاب پڑھاؤ مگر لنگڑے کی آم کی قلم نہ لگاؤ تو کیا صرف کتاب پڑھنے سے وہ لنگڑا آم بن جائے گا؟ میرے مرشدِ اوّل فرماتے تھے کہ جن لوگوں نے اﷲ والوں کے ساتھ زندگی کے کچھ دن لگائے وہ اﷲ والے بن گئے، اور خالی پڑھنے سے علم تو آجائے گا، آپ عالمِ منزل تو ہوجائیں گے، منزل کا علم تو ہوجائے گا کہ یہ اﷲ کا راستہ ہے، ایسے چلو ایسے چلو، مگر محض کتاب پڑھنے سے آپ منزل تک نہیں پہنچ سکتے، بالغِ منزل نہیں ہو سکتے۔ مدرسوں سے پڑھ کر عالمِ منزل ہونا اور ہے اور اﷲ والوں سے بالغِ منزل ہونا اور ہے۔ مدرسوں سے اِرَاءَۃُ الطَّرِیْقِپاؤ گے یعنی اﷲ کا راستہ نظر آئے گا مگر اِیْصَال اِلَی الْمَطْلُوْب یعنی منزل تک اﷲ والے پہنچائیں گے۔ جو خود نہیں پہنچا وہ دوسروں کو کیا پہنچائے گا؟ ایک آدمی نے حج نہیں کیا مگر کتاب خوب پڑھی ہے، حج کے سارے مسائل کو جانتا ہے مگر حاجی نہیں ہے تو اس کی تقریر میں بھی مزہ نہیں آئے گا کیوں کہ نہ اس نے کعبہ شریف دیکھا، نہ روضۂ مبارک دیکھا تو اسے کیا مزہ آئے گا۔