صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
ایسا فرق ہے جیسے مریض ایک تو طبیب کے پاس رہ کر علاج کراوے اور دوسرا محض خط و کتابت کے ذریعے علاج کراوے ظاہر ہے کہ نفع میں زمین اور آسمان کا فرق ہوگا۔ ایک شخص نے دریافت کیا کہ مولویوں کو کیا ہوا کہ جو حضرت حاجی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی طرف رجوع کرتے ہیں یہ تو خود لکھے پڑھے ہیں، وہاں کیا چیز ہے جس کے لیے جاتے ہیں؟ وہ کون سی بات ہے جو کتابوں میں نہیں ہے؟ فرمایا: اس کو ایک مثال سےسمجھو۔ ایک شخص کے پاس تمام مٹھائیوں کی فہرست ہے مگر اس نے چکھی نہیں۔ایک وہ شخص ہے کہ نام ایک مٹھائی کا بھی نہیں جانتا مگر ہاتھ میں سب لیے ہوئے کھا رہا ہے، اب بتاؤ کون محتاج ہے کس کا؟ فرمایا: گناہوں کی عادت چھوڑنے کے تین گُر ہیں: 1۔ خود ہمت کرے۔ 2۔ حق تعالیٰ سے ہمت طلب کرے۔ 3۔ خاصانِ حق سے ہمت کی دعا کرائے۔ احقر اختر عرض کرتا ہے: تیسرے جز کے متعلق روح المعانی میں ایک عبارت ملی جو اہلِ علم کے لیے قابلِ توجہ ہے۔ صَلِّ عَلَیْہِمْ کی تفسیر یوں کی ہے اَیْ بِاِمْدَادِ الْھِمَّۃِ وَ فَیْضَانِ اَنْوَارِ الصُّحْبَۃِ؎ حق تعالیٰ شانہٗ نے حضور صلی اﷲ علہ وسلم کو اپنے اصحاب کے لیے ہمت کی دعا کا حکم دیا ہے۔ پس خاصانِ خدا کی دعا کا مقام واضح ہو گیا۔ اہل اﷲ کی صحبت میں برکت اور ان کی مجلس میں نزولِ رحمت پر تو تجربہ و مشاہدہ تواتر سے ثابت ہے۔ ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں: وَفِیْہِ اسْتِحْبَابُ الدُّعَاءِ عِنْدَ حُضُوْرِ الصَّالِحِیْنَ فَاِنَّ عِنْدَ ذِکْرِہِمْ تَنْزِلُ الرَّحْمَۃُ فَضْلًا عَنْ وُجُوْدِہِمْ وَحُضُوْرِہِمْ؎ جب اﷲ والوں کے ذکر سے رحمت نازل ہوتی ہے تو خود ان کی صحبت اور مجلس میں کس ------------------------------