صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
اِنَّ جَلِیْسَہُمْ یَنْدَرِجُ مَعَہُمْ فِیْ جَمِیْعِ مَا یَتَفَضَّلُ اللہُ بِہٖ عَلَیْہِمْ اِکْرَامًا لَہُمْ؎ یعنی اہل اللہ صالحین کی صحبت میں بیٹھنے والا ان ہی کے ساتھ درج ہوجاتا ہے،ان تمام نعمتوں میں جواللہ تعالیٰ اللہ والوں کو عطا فرماتا ہے ،اور یہ اہل اللہ کااکرام ہوتا ہے۔اسی طرح حکیم الامت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ایک سائل کے سوال کے جواب میں صحبتِ اہل اللہ کے وجوب کے بنیادی اسباب اور اس کی اہمیت کو تحریر فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ منجیاتِ قلبیہ کی تحصیل اور مہلکاتِ قلبیہ کا ازالہ واجب ہے اور تجربہ سے اس کا طریق حضرات کاملین مکمّلین کی صحبت اور ان کی تعلیم پر عمل کرنا ثابت ہوا ہے۔ اس لیےبحکم مُقَدَّمَۃُ الْوَاجِبِ وَاجِبٌ یہ بھی ضروری ہے۔ اورترکِ واجب میں والدین کی اطاعت نہیں۔ قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ:لَاطَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ؎ اسی طرح حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی دوسری تصنیف ’’امداد الاحکام‘‘میں تحریر فرماتے ہیں:جس طرح ہر مرد وعورت پر اپنے اپنے حالات ومشاغل کی حد تک ان کے فقہی مسائل جاننا فرض ہے ،اور پورے فقہ کے مسائل میں بصیرت ومہارت پیدا کرنا، اور مفتی بننا سب پر فرض نہیں،بلکہ فرضِ کفایہ ہے،اسی طرح جو اخلاقِ حمیدہ کسی میں موجود نہیں انہیں حاصل کرنا اور جورذائل اس کے نفس میں چھپے ہوئے ہیں ان سے بچنا، تصوف کے جتنے علم پر موقوف ہے اس کا علم حاصل کرنافرضِ عین ہے۔ اورپورے علمِ تصوف میں بصیرت ومہارت پیدا کرناکہ دوسروں کی تربیت بھی کرسکے یہ فرضِ کفایہ ہے۔)نیز یاد رہے کہ اخلاقِ حمیدہ سے متصف ہونا اور باطنی بُرے اعمال سے اجتناب کرنا بدونِ صحبتِ اہل اللہ ناممکن ہے جیسا کہ حضرت ہی کے ماقبل میں مذکور فتوے کی عبارت سے ظاہرہوتا ہے جس سے صحبت ِ صالحین کی اہمیت کا اندا زہ ہوجاتا ہے۔) چناں چہ ہمارے پیارے مرشد شیخ العرب والعجم، عارف باللہ ،رومیٔ ثانی ،تبریز ِ دوراں،جنیدِ زماں،مجددِ غضِ بصر،حضرتِ اقدس حضرت مولانا شاہ حکیم محمداختر ------------------------------