صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
ساتھ لفظ ’’ترک‘‘ استعمال کرنا میں بے ادبی سمجھتا ہوں، کیوں کہ ترک کا لفظ چھوڑنے کے معنیٰ میں آتا ہے جیسے آج کل لوگ کہتے ہیں کہ آئیے! میری موٹر میں بیٹھ جایئے ، میں آپ کو چھوڑ دوں۔ میں کہتا ہوں خدا کے لیے مجھے چھوڑیے مت، پہنچا دیجیے۔ توحکیم الامت تھانوی نور اللہ مرقدہٗ نے ان صاحب سے فرمایاکہ تمہارا ذکر ملتوی کرتا ہوں۔ اس وقت تک جب تک کہ مجھے اطمینان نہ ہوجائے کہ تمہارا تکبر چلا گیا۔ اور دوسرا نسخہ یہ ہے کہ جتنے نمازی ہیں ان کے جوتے سیدھے کرو اور وضو خانے کی نالی میں نمازیوں کا جو بلغم وغیرہ ہے وہ صاف کرو۔ ذکر کے بدلہ اب یہ کام کرنے کو ملے گا۔دوا بدل گئی، پہلے کونین دی جائے گی حلوہ نہیں کھلایا جائے گا، کونین کڑوی ہوتی ہے، جس کا ایک نام ریسوچین بھی ہے جب ریسوچین کھائی تو چین آیا یعنی روحانی ملیریا کا جو مادّہ تھا وہ نکلا۔ جب تکبر نکلا تو دل میں سکون اور ان کے اخلاق میں نرمی آگئی، غصہ میں اعتدال آنے لگا، ڈانٹ ڈپٹ سب ختم ہوگئی۔اب خاموشی سے نالی صاف کر رہے ہیں اور جوتیاں سیدھی کر رہے ہیں۔ ایک زمانے بعد تکبر سے نجات مل گئی اور اللہ نے ان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا! ان کو بہت نوازا اور وہ بہت بڑے ولی اللہ ہوئے۔ ایک عالم صاحب ایک بزرگ کے پاس آئے، ان کے اندر بھی یہی مرض تھا، ان کو علم کا نشہ ہوا۔ تو انہوں نے خط میں اپنے مرشد کو حال لکھا کہ حضرت! آج کل ذکر میں مزہ نہیں آرہا۔شیخ نے اندازہ لگالیا، فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے آپ کی تقریروں سے آپ کی تعریف ہوئی ہے ،اور درس وتدریس پر زیادہ تعریفیں سننے سے آپ کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ لہٰذا آپ اب ذکر کو ملتوی کیجیے ،اور پانچ کلو اخروٹ خریدیے اور سر پر رکھیے اور جس محلے میں بچے بہت زیادہ ہوں، وہاں بیٹھ جایئے اور سب بچوں سے کہیے جو میرے سر پر ایک تھپڑ مارے گا اس کو ایک اخروٹ دوں گا، بچوں کو تو دو قسم کے مزے آگئے تھپڑ مارنے کا مزہ الگ اور اخروٹ ملنے کا الگ۔ انہوں نے وہ دھول لگائی کہ سر سے پگڑی ادھر جاگری اورٹوکرا خالی ہوگیا اخروٹ سے اور دماغ خالی ہوگیا تکبر کی پوٹ سے ؎ نہ جانے کیا سے کیا ہوجائے میں کچھ کہہ نہیں سکتا جو دستارِ فضیلت گم ہو دستارِ محبت میں