صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
یہ واقعہ لکھا ہے کہ اس وقت کے بعض علماء نے اس شیخ کو کفر کا فتویٰ دے دیا لیکن ایک سال کے بعد جب شیخ کو محسوس ہوگیا کہ اب مرید کا نفس مٹ گیا ہے تو بیان کرنے کی اجازت دے دی۔ تو پہلے ہی وعظ سے سامعین کا جتنا مجمع تھا سب صاحبِ نسبت ہوگیا حالاں کہ اس سے پہلے دس سال تک جگہ جگہ تقریر کی تھی، مگر دس سال تک وہ نفع نہیں ہوا جو ایک سال شیخ کے یہاں نفس کو مٹانے اور رگڑا لگانے کے بعد ہوا۔ ایک صاحب کو حکیم الامت تھانوی نوّر اللہ مرقدہٗ نے اللہ اللہ کا ذکر بتایا۔ جب انہوں نے اللہ اللہ شروع کیا تو مزاج میں اور بڑائی آگئی جیسے کسی کو قے ہورہی ہو، ملیریا ہو، پیٹ میں صفرا ہو تو وہ حلوہ یا انڈہ یا دودھ یا مچھلی کھاتا ہے سب فاسد مادّہ بن جاتا ہے، اگر پیٹ میں انفیکشن ہے، زہریلا مادّہ ہے تو جو دودھ وغیرہ پیے گا سب زہر بن جاتا ہے، تو چوں کہ اس شخص کے مزاج میں پہلے ہی سے تکبر تھا۔ لہٰذا جب حکیم الامت تھانوی نوّر اللہ مرقدہٗ نے اس کو ذکر بتایا تو عبادت کرنے سے اس کے مزاج میں اور اکڑ آگئی۔اس نے کہا: اب تو میں اللہ اللہ بھی کرتا ہوں۔ لہٰذا اب سب کو ڈانٹنا شروع کردیا کہ تم نے یہاں کیوں نماز پڑھ لی؟یہاں لوٹا کیوں رکھ دیا؟یہاں اپنی تسبیح کیوں ٹانگ دی اور تم زور سے کیوں ذکر کر رہے ہو؟ تم کیوں رو رہے ہو؟ ایک دن حکیم الامت نے دیکھ لیا اور بلا کر فرمایاکہ یہاں آیئے!آپ یہاں مریض ہیں یا حکیم ہیں؟ یہ اشرف علی یہاں کس لیے بیٹھا ہو اہے؟ مریض کی حیثیت سے آپ کو خاموش رہنا چاہیے تھا، اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے تھا، میرا کیپسول کھاتے اور آرام سے بیٹھتے، یہ تم نے تھانہ بھون میں حکومت شروع کردی۔ میں یہاں کس لیے بیٹھا ہوں؟ یہ لوگ تمہارے پاس آئے ہیں یا میرے پاس آئے ہیں؟ میری ڈانٹ سننے کے لیے آئے ہیں یا تمہاری پکڑدھکڑ سننے کے لیے آئے ہیں؟معلوم ہوا کہ تمہارے مزاج میں تکبر ہے، تم اس قابل نہیں ہو کہ تمہیں عمدہ غذا کھلائی جائے۔ابھی تمہیں جلاب دینا پڑے گا تمہارے پیٹ سے صفرا نکالنا پڑے گا۔ لہٰذا آج سے تمہارا ذکر ملتوی۔ حکیم الامت فرماتے ہیں کہ دیکھو !میں نے ذکر کے لیے لفظ ِ’’ملتوی‘‘ اختیار کیا یعنی فی الحال ذکر بند کردو، ترک کا لفظ نہیں اختیار کیا کہ ذکر کو ترک کردو، کیوں کہ اللہ کے نام کے