صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
کی برکت سے اللہ والے بن گئے۔ جگر مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اللہ والے بن گئے اور جون پور کے ایک شاعر جن کانام عبد الحفیظ تھا شراب پیتے تھے۔ یہ سن کر تھا نہ بھون گئے کہ وہاں انسان، انسان بنتے ہیں شایدیہ شرابی بھی انسان بن جائے۔ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب نے فرمایاکہ حضرت سے بیعت ہوگئے اور بیعت بھی کیسے ہوئے کہ خانقاہ تھا نہ بھون میں چند دن قیام سے داڑھی جو تھوڑی سی بڑھ گئی تھی وہ بیعت ہونے سے پہلے منڈوالی اور حضرت تھانوی سے درخواست کی کہ حضرت! مجھے بیعت کرلیجیے۔ حضرت نے فرمایاکہ جب بیعت ہی ہونا تھا تو اللہ کانور جو چہرے پر آگیا تھا اس کو کیوں صاف کیا؟عرض کیا کہ حضرت!آپ حکیم الامت ہیں میں مریض الامت ہوں۔مریض کو چاہیے کہ حکیم کے سامنے اپنا سارا مرض پیش کردے تاکہ نسخہ اسی طاقت سے لکھا جائے۔یہ عمل تو بظاہرصحیح نہیں تھا، لیکن چوں کہ نیت اچھی تھی اس لیے حضرت نے اس پر گرفت نہیں فرمائی۔پھر خود ہی عرض کیا کہ اب کبھی داڑھی پر اُسترا نہیں لگاؤں گا۔ حضرت نے بیعت فرمالیا،یہ جون پور آگئے۔ ایک سال کے بعد حضرت وعظ کے سلسلے میں جونپور تشریف لے گئےدیکھا کہ ایک بڑے میاں کھڑے ہیں، ایک مشت داڑھی رکھے ہوئے۔ فرمایا کہ یہ بڑے میاں کون ہیں؟ عرض کیا گیا کہ یہ وہی بڑے میاں ہیں جو کس حالت میں تھانہ بھون گئے تھے۔ حضرت ان کی داڑھی دیکھ کر خوش ہوگئے۔ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ان کاخاتمہ بڑا اچھا ہوا۔ تین دن تک گھر میں روتے رہے۔ اللہ کاخوف طاری ہوگیا، کمرے میں اِدھر سے اُدھر ایک دیوار سے دوسری دیوار تک تڑپ کے جاتے تھے اور روتے تھے، اسی طرح روروکے جان دے دی اور اس خوف کی حالت میں اللہ کے پاس چلے گئے اور اپنے دیوان میں یہ اشعار بڑھادیے تھے ؎ مِری کھل کر سیہ کاری تو دیکھو اور ان کی شانِ ستّاری تو دیکھو