صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
فرماتے ہیں کہ کسی مرشدِ کامل سے اصلاح کرانا یعنی اصلاح کے لیے شیخ سے تعلق قائم کرنا اس کو میں فرض عین قرار دیتا ہوں ،کیوں کہ عادت اللہ یہی ہے کہ بغیر شیخ کے اصلاح نہیں ہوتی، خواہ تفسیر پڑھا رہا ہو، خواہ بخاری پڑھا رہا ہو، مگر اپنی اصلاح خود سے نہیں ہوتی، اپنا عیب خود سے نظر نہیں آتا۔ اپنے چہرے میں کہیں روشنائی لگ جائے تو کیسے نظر آئے گا؟ جب تک آئینہ نہیں ہوگا۔ بس شیخ آئینہ ہوتا ہے، وہ بتا دیتا ہے کہ تمہارا یہ راستہ خطرناک ہے، اس میں تمہارے لیے ضرر ہے۔ آدمی تو اپنی عقل سے سوچتا ہے کہ میں جان دے دوں گا۔یہ بہت عمدہ راستہ ہے اور اس میں دین کی حفاظت ہے، امت کی خدمت ہے اور اس طریقے سے دین غالب ہوجائے گا۔ لیکن سنیے!مدرسہ بیت العلوم کے استاذ ِحدیث جن کی خلافت چھینی گئی تھی وہ اعظم گڑھ میں مدرسہ بیت العلوم میں پڑھایا کرتے تھے۔ میں نے حضرت شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ ان کی خلافت کس وجہ سے چھینی گئی ؟تو فرمایا کہ انہوں نے ایک سیاسی تحریک کو امت کے لیے مفید سمجھتے ہوئے حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو لکھا کہ مجھے اتنا جوش آرہا ہے کہ میں اس تحریک پرجان دے دوں۔ حکیم الامت نے تحریر فرمایا کہ آپ کے اندر حبِّ دنیا ہے اور آپ کی خلافت سلب کی جاتی ہے۔ حالاں کہ ان کی تحریر یہ تھی کہ خدا کے راستے میں میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس پر اپنی جان فدا کردوں، جان قربان کردوں۔ جان کی قربانی پر انعام ملنا چاہیے، مگر بجائے انعام کے سزا مل رہی ہے۔ حکیم الامت فرماتے ہیں کہ آپ کے اندر حبِّ دنیا ہے، حبِّ جاہ ہے۔ اور میں نے آنکھوں سے دیکھا کہ واقعی ؎ قلندر آنچہ گوید دیدہ گوید اللہ والوں کی زبان سے جو بات نکلتی ہے وہ بالکل صحیح ہوتی ہے۔ آنکھوں سے دیکھا کہ حبِّ دنیا کے آثار تھے۔ پانچ روپے کا شربت بنایا اور غلط بیانی کر کے پچاس روپے لے لیے اور شربت بھی کھٹا ہوگیا۔ خراب ہوگیا۔ لوگوں سے گالیاں مل رہی ہیں۔ یہ سب حبِّ دنیا کے اثرات موجود تھے۔