صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
متقی بنادے ،اور متقی بننے کی تدبیر نہ اختیار کرے تو خالی دعاؤں سے متقی نہیں بنوگے۔ اگر دیسی آم دس ہزار سال تک دعا کرتا رہے کہ اے خدا !مجھے لنگڑا آم بنادے لیکن جب تک لنگڑے آم کے ساتھ پیوندکاری کی ٹیکنالوجی اس کو نہیں ملے گی دیسی ہی رہے گا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے چودہ سو برس پہلےکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ کی یہ سائنس اور ٹیکنالوجی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے امت کو عطا فرمائی کہ تمہارا گناہ گار قالب اور گناہوں کا خوگر قلب کیسے متقی بنے گا؟ کسی متقی سے متصل ہوجاؤ اور اس کے ساتھ رہ پڑو۔ اور کتنا رہو؟ تفسیر روح المعانی میں اس کی تفسیر ہےخَالِطُوْھُمْ لِتَکُوْنُوْا مِثْلَھُمْ اتنا رہو کہ تم بھی اس اللہ والے جیسے بن جاؤ۔یعنی جیسا وہ اللہ والا ہے تم بھی ویسے ہی بن جاؤ۔اس کاتقویٰ ، اس کی خشیت، اس کی محبت تمہارے اندر منتقل ہوجائے۔ اگر تم ویسے نہیں بن پارہے ہو تو پھرکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ کی ٹیکنالوجی پر تمہارا عمل کمزور ہے، تمہاری پیوند کاری صحیح نہیں اور تمہاری خیانت اس میں پوشیدہ ہے۔تم نے اچھے دل سے ،صاف دل سے اور پکے ارادے اور اخلاص کے ساتھ اللہ کو اپنا مراد نہیں بنایا۔ اور اس اللہ والے سے تمہارا تعلق ڈھیلا ڈھالا ہے کہ اپنی رائے کو تم نے فنا نہیں کیا، اس کی تجویزات اور مشوروں کی اتباعِ کامل نہیں کی۔یہی دلیل ہے کہ اللہ والوں کے ساتھ تمہاری پیوند کاری صحیح نہیں ہے۔ ہمیں اللہ والوں کے ساتھ اس ارادے سے رہنا ہے کہ اللہ ہماری مراد ہوجائے اور وہ مراد مل بھی جائے۔ ایک ہے مراد ہونا، دل میں ارادہ ہونا کہ میری یہ مراد ہے اور ایک مراد مل جانا ہے، مراد کا پاجانا ہے۔ دونوں میں فرق ہے۔ اللہ تو ہر مؤمن کامراد ہے مگر دل میں مراد پاجاؤ،اللہ مل جائے، مولیٰ کاقربِ خاص دل محسوس کرنے لگے۔یہ بغیر اس ٹیکنالوجی کےاور اس پیوند کاری کے یعنی صاف قلب سے اخلاص کے ساتھ کسی اللہ والے کے ساتھ رہے بغیر ممکن نہیں۔ اگر اللہ والے سے صحیح تعلق نصیب ہوجائے تو ایک دن ضرور بالضرور اللہ والے بن جاؤ گے۔یہ قرآنِ پاک کااعلان ہے،یہ تصوف بلا دلیل نہیں ہےکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ اللہ تعالیٰ کاحکم ہے کہ اگر تقویٰ حاصل کرنا چاہتے ہو تو صادقین کے ساتھ ہمارے سچے بندوں کے ساتھ رہو، اور صادقین سے مراد متقین ہیں۔ اور متقین