صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
میاں! اگر صرف تلاوتِ قرآن سے اصلاح ہوجاتی تو نبیوں کو اللہ تعالیٰ نے کیوں پیدا کیا؟ اور تزکیہ کی نسبت نبی کی طرف کیوں کی گئی؟ وَیُزَکِّیْھِمْکہ ہمارے نبی تمہاری اصلاح کریں گے۔ اصلاح کی نسبت نبی کی طرف ہے، اور پھر نائبینِ انبیاء کی طرف ہے۔ آدمی آدمی بناتا ہے۔ کتاب خود سمجھ میں نہیں آسکتی۔ کتابُ اللہ کے لیے رجالُ اللہ پیدا کیے جاتے ہیں۔ دیکھیے !سورۂ فاتحہ کی تفسیر’’معارف القرآن‘‘میں مفتی محمد شفیع صاحب نے لکھا ہے کہ کتاب اللہ کو سمجھنے کے لیے رجال اللہ کی ضرورت ہے۔ اور کتاب پر عمل کرنے کے لیے ہمت کا پیٹرول بھی ان ہی مردانِ خدا کے سینو ں سے عطا ہوتا ہے۔ اگر نبی وقت زندہ ہے تونبی کے سینے سے اور اگر نبی زندہ نہیں ہے دنیا سے تشریف لے گیا تو اس کے نائبین کے سینوں سے۔ اور جنہوں نے رجال اللہ کوچھوڑ کر کتاب اللہ کو سمجھنا چاہا وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔صِراطِ مُنْعَمْ عَلَیْھِمْ کو چھوڑ کر دین نہیں مل سکتا۔ مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے یہی فرمایا تھا کہ ہم حاجی امداد اللہ صاحب سے جو مرید ہوئے ہیں تو ہم نے ان سے مسئلہ پوچھنے کے لیے مریدی نہیں کی۔ مسئلہ تو حاجی صاحب ہم سے پوچھیں گے۔ لیکن ہم نے جو کچھ پڑھا ہے اس پر عمل کرنے کے لیے توفیق اور ہمت کاپیٹرول حاجی صاحب سے ہم لینے گئے تھے۔ دیکھیے!اتنے بڑے بڑے علماء بھی اہل اللہ سے بے نیاز اورمستغنی نہیں ہوئے۔ بس سبق لینے کی بات ہے۔تومیرے دوستو! اصلاح کے لیے کسی مصلح سے تعلق ضروری ہے۔لیکن اللہ والوں کی دوستی ان کے پاس اُٹھنا بیٹھنا اور ان کی صحبت میں رہنا ہی کافی نہیں،ان کو اپنے حالات بتانا پھر ان کے مشوروں کی اتباع بھی ضروری ہے۔ صحبت کے حقوق بھی تو ہوتے ہیں۔یہ نہیں کہ ان کی مرغ کی دعوت کردی یاچائے پلادی اور اصلی مکھن کھلا دیا اور سمجھے کہ ان کی صحبت کاحق ادا ہوگیا۔ صحبتِ اہل اللہ کے حقوق میں ہے کہ اپنے حالات ان سے بیان کیے جائیں۔ پھر ان کے مشوروں پر عمل کیاجائے۔ اطلاع اور اتباع ہو اخلاص کے ساتھ۔