صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
حیثیت اور قیمت بڑھ جائے گی۔ اس کے بعد صدر اور وزیر اعظم اور بادشاہ بڑے بڑے علماء اور مفتی اعظم جو دل کے مریض ہوں گے وہ تمہیں کھائیں گے، اور تم ان کے دل کی قوت بنوگے۔ ایک آملہ نے کہا کہ جب یہ بات ہے تو میں مجاہدہ کو قبول کرتاہوں۔ دوسرے نے کہا: صاحب! واہ یہ بھی کوئی بات ہے بندہ ہوکر بندہ کی غلامی! لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ ؎ نہ بندہ ہو کسی بندے کے بس میں تڑپ کر رہ گئی بلبل قفس میں مجھے قفس میں نہیں رہنا، میں آزادی اور مطلق العنانی چاہتاہوں، مجھے کسی انسان کی غلامی اورتابعداری کی ذلت گوارا نہیں۔ تو اس مربیّ نے کہا: ٹھیک ہے، آپ پڑے رہیے یہیں۔ وہ آملہ درخت کے نیچے پڑارہا، سورج کی شعاعوں نے اس کو کالا کردیا، اس کی صورت بھی بگاڑدی، سیرت بھی بگاڑ دی۔ پھر ایک بنیا آیا، جھاڑو سے سمیٹ کر ایک بورے میں بھر کر لے گیا اور بورے کودکان میں ایک طرف پھینک دیا۔ کسی کو قبض ہوا۔ بنیے سے پوچھا کہ بھئی! ترپھلا ہے؟ کہا کہ ہاں ہے۔ لو بھائی! آملہ ہرا بہیڑہ کوٹو اور پھانکو۔ ایک روپیہ میں پانچ سیر کے حساب سے بکا اور دافعِ فضلہ بنایعنی پاخانہ دھکیلنے کی خدمت ملی۔ مربیّ سے اعراض وانکار کی بدولت یہ ذلیل مقام نصیب ہوا ۔اور جس نے تربیت کرالی، اور مجاہدہ کر کے مربّہ بن گیا ،تو حکیم اجمل خان نے نواب رام پور کو نسخہ میں لکھا کہ: ’’ مربہ آملہ گرفتہ از آب گرم شستہ ورق نقرہ پیچیدہ نہار منہ بخورند‘‘ اب جو یہ غیر مربہ آملہ مربہ کو دیکھتا ہے تو حسد کرتا ہے کہ یہ تو وہی ہے جو میرے ساتھ درخت سے گرا تھا اسے یہ مقام کیسے نصیب ہوگیا؟ کہ بڑے بڑے لوگ اس کے گرویدہ ہورہے ہیں۔ اسی طرح جو عالم کسی اللہ والے سے اپنے نفس کاتزکیہ کرا کے صاحب ِنسبت