صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
ہے اور اہل اﷲ اس کے مکین ہیں اور مکین افضل ہوتا ہے مکان سے۔ اور مکان کتنا بھی اچھا ہو مکین سے اچھا نہیں ہوسکتا۔ اچھے مکین کی صحبت تو اچھے مکان سے بھی افضل ہے، بلکہ مکان میں حُسن تو حُسنِ مکین ہی سے آتا ہے۔ میرا فارسی شعر ہے ؎ میسر چوں مرا صحبت بجانِ عاشقاں آید ہمیں بینم کہ جنت بر زمین از آسماں آید جب مجھے اﷲ تعالیٰ کے عاشقوں کی صحبت نصیب ہوجاتی ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ جنت آسمان سے زمین پر آگئی ہے۔اور جو لوگ جنت میں جانے والے ہیں یہاں ان کے ساتھ رہنے والا بھی جنت میں جائے گا۔ وہاں کا ثمرہ فَادْخُلِیْ دراصل یہاں کے فَادْخُلِیْ کا ثمرہ ہوگا یعنی جو یہاں اہل اﷲ کے ساتھ رہتا ہے تو یہ رفَاقَۃْ فِی الدُّنْیَا رِفَاقَۃْ فِی الْجَنَّۃ کا ذریعہ ہوگی۔ لیکن صرف ساتھ رہنا کافی نہیں بلکہ ساتھ رہنے کی شرط اتباع ہے کیوں کہ رِفاقت بدون اتباع صحیح نہیں۔قربِ حسّی مقصود نہیں، اتباع حاصل ہے تو دوری میں بھی قربِ معنوی حاصل ہے۔ جو متبع نہیں وہ قریب رہ کر بھی رفیق نہیں اور جسے اتباع حاصل ہے وہ دور ہو کر بھی قریب ہے۔ پس جو صحیح معنوں میں ان کا رفیق ہوگا دنیا ہی میں اس کو جنت کا مزہ آنے لگے گا کیوں کہ یہ اﷲ کے خاص بندے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے یائے نسبتی سے ان کو اپنا فرمایا ہے کہ یہ میرے ہیں۔ جنت میں بھی میرے ہیں اور دنیا میں بھی میرے ہو کے رہے۔ نہ نفس کے ہوئے نہ شیطان کے ہوئےنہ معاشرہ کے ہوئے،ساری زندگی میرے ہو کے رہے، ساری زندگی میری مانی، نہ نفس کی مانی، نہ شیطان کی مانی، جسم و جان سے مجھ پر قربان رہے۔ گناہوں کے تقاضوں پر صبر کیا،اگر کبھی غلطی ہو گئی تو خون کے آنسو بہائے، میرے حضور میں کلیجہ رکھ دیا۔ تو پھر ان کے لیے میں یائے تخصیص کیوں نہ لگاؤں اور ان کو کیوں نہ کہوں کہ یہ میرے ہیں؟ ۲) اور دوسرا عمل یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کو جو متبعِ سنت و شریعت ہو اور بزرگانِ دین کا صحبت یافتہ و اجازت یافتہ ہو اپنا مربی اور دینی مشیر بنالیں اور اس کے مشورہ سے خلوت میں کچھ ذکر کر لیا کریں۔ تو ذکر سے جو نور پیدا ہوگا خواہ قلیل و ضعیف ہو