ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
اور وتر یعنی طاق راتیں وہ ہیں جن کے بعد طاق عدد کا روزہ ہو مثلا بیسواں دن گزر کر جو رات آ ئے گی وہ اکیسویں ہو گی و علی ہذا کیونکہ شریعت میں رات پہلے آ تی ہے دن اس کے بعد آتا ہے بجز حج کی رات کہ اس میں شریعت نے عوام کی آسانی کے لئے ان ہی کے محاورہ کے موافق مقرر فرما دیا یعنی جیسے عوام کے محاورہ کے مطابق دن پہلے ہوتا ہے رات پیچھے ہوتی ہے ـ اسی کے موافق راتیں احکام کے لئے مقرر فرما دیں ـ سبحان اللہ وہ بندوں کے ضعف کی کس قدر رعایت فرماتے ہیں کہ اگر کوئی اپنی بے سمجھی سے نویں تاریخ دن کے وقت عرفات میں نہ پہنچ سکے تو چونکہ اس کے زعم میں اگلی رات نویں رات ہے اس لئے اس رات کو ہی نویں مقرر فرما دیا ـ پس اگر عرفات میں اس رات کے کسی حصے میں بھی چلا گیا تو حج ہو جائے گا ـ اب یہ بات رہ گئی کہ ان راتوں میں جاگنے کی کیا مقدار ہونا چاہیے سو میرا یہ خیال ہے کہ لیالی قدر میں بقیہ راتوں کی نسبت معمول سے زیادہ جاگنا کافی ہے یہ ضروری نہیں کہ ساری رات جاگے اب یہ بات رہ گئی کہ ان میں کونسی عبادت کرنا زیادہ بہتر ہے سو سب سے بہتر اس رات میں نفل پڑھنا ہیں ـ کیونکہ قیام کی فضیلت ہے اور قیام نفلوں میں ہو سکتا ہے اگر کچھ تلاوت اور ذکر بھی کر لے تو بہتر ہے مگر ذکر میں صوفیہ کی قیود کی پابندی ضروری نہیں ـ کیونکہ ان قیود میں ایک خاص مصلحت ہے باقی عبادت وہ بھی ہے جو ان سے خالی ہو اور خود صوفیہ بھی جب منتہی ہو جاتے ہیں ان قیدوں کو ترک کر دیتے ہیں مثلا ضربیں و غیرہ لگانا ـ جہر کرنا کوئی خاص ہیئت بنانا و غیرہ ـ قرآن شریف کا طرز مصنفین کا طرز نہیں فرمایا قرآن شریف کا طرز مصنفین کا طرز نہیں بلکہ محاورہ بول چال کے طرز پر ہے نہ اس میں اصطلاح الفاظ کی پابندی ہے نا واقف لوگ اس کو عام تصانیف کے طریق پر منطبق کرنا چاہتے ہیں اس لئے سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے مثلا سورہ قیامہ میں شروع میں بھی قیامت کا ذکر ہے اور اخیر میں بھی ـ اور درمیان میں فرمایا لا تحرک بہ لسانک لتعجل بہ ـ اب اسی خیال سے اس کا سیاق و سباق سے ربط تلاش کرتے پھرتے ہیں ـ اس غلطی کا منشا