ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
|
دوسری عبادت رمضان شریف میں لیلۃ القدر کا قیام ہے ـ لیلۃ القدر کی تعیین میں نوویؒ نے بہت سے اقوال نقل کئے ہیں مگر راجح قول یہ ہے کہ وہ عشرہ اخیرہ کی طاق راتوں میں ہے پھر اس میں بھی دو احتمام ہیں ایک یہ کہ معین ہے دوسرا یہ کہ دائر ہے کبھی اکیسویں میں اور کبھی ستائیسویں میں مثلا اور دوسرا قول زیادہ ظاہر ہے پھر حق تعالی کی اس میں حکمت دیکھئے کہ عشرہ اخیرہ کی ہر رات کو شب قدر کی تلاش کے لئے مقرر نہیں فرمایا بلکہ وتر ( طاق ) راتیں مقرر کیں تاکہ درمیان میں ایک رات آرام کر لیا کریں ورنہ عشاق تو آنکھیں ہی پھوڑ لیتے کیونکہ دن کو سونے میں اتنی راحت نہیں جتنی رات کے سونے میں ہوتی ہے تو اس صورت میں دسوں راتیں جا گتے ہی میں گزرتیں اور اس رات کی فضیلت یہ ہے کہ اس میں ہزار مہینہ کی عبادت سے زیادہ ثواب ملتا ہے اور یہ جو مشہور ہے کہ ہزار مہینہ کے برابر ہے یہ غلط ہے خیر من الف شھر میں اس کی تصریح ہے آ گے صرف یہ سوال رہا کہ اس زیادت کی کوئی حد ہے یا نہیں سو ظاہر ہے کہ حد اور قید کی کوئی دلیل نہیں اس لئے لاکھ اور کروڑ ارب سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے اگر کوئی شبہ کرے کہ محاورہ میں جب یہ کہتے ہیں کہ ہزار سے بہتر تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہزار سے تو زیادہ مگر ہزار سے قریب قریب جیسے کہتے ہیں سو کے قریب تو معنی اس کا ہوتا ہے کچھ زیادہ ـ پس اسی طرح یہاں مراد ہونا چاہیے تو لاکھوں کروڑوں کا احتمال نہیں ہو سکتا ـ جواب اس کا یہ ہے کہ سو پر قیاس غلط ہے کیونکہ عربی محاورہ میں سو سب سے بڑا عدد نہیں اور الف کا لفظ سب سے بڑا عدد ہے ـ یعنی اس کے اوپر مفرد عدد عربوں کے ہاں نہیں ہے ـ پس خیر من الف شھر کا مطلب یہ ہو گا کہ تمہارے نزدیک جو سب سے زیادہ بڑا عدد ہے اس سے بھی بہت زیادہ ( یا بہتر ) ثواب ہو گا ـ اگر قرآن شریف اردو زبان میں ہوتا تو اس مقصود کے ادا کیلئے فرماتے کہ سنکھ سے بہت بہتر ثواب ہو گا ـ پس اس بنا پر اگر کوئی یوں امید رکھے کہ بے شمار ثواب ہو گا جو شمار ہی میں نہیں آتا تو ان شاء اللہ تعالی اس کو انا عند ظن عبدی بی کے مطابق اسی طرح ملے گا ـ حق تعالی بندے کے ساتھ اس کے ظن کے مطابق معاملہ فرماتے ہیں ؎ نیم جاں بستا ند و صد جاں دہد آںچہ درو ہمت نیا بد آں دہد