ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
خیال نہ آ ئے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جب یہ حاصل نہ ہو گا تو تھک کر چھوڑ دے گا اور ایک عمل ضعف اس سے بڑھ کر ہو گا کہ عقیدہ بھی خراب ہو جائے گا اور شیطان یوں کہے گا کہ دیکھو اللہ میاں نے ایسے کام کا مکلف کیا جو ہو ہی نہیں سکتا ۔ اور ساتھ ہی یہ دعدہ بھی ہے لا یکلف اللہ نفسا ۔ ہاں ایک حالت استغراق کی ہوتی ہے اس میں اور خیال نہیں آ تے مگر وہ حالت ناقص ہے اس کی دو دلیلیں ہیں ۔ ایک یہ اگر یہ حالت اچھی ہوتی تو حضورؐ کو ضرور حاصل ہوتی حالانکہ حضورؐ کو حالت حاصل نہ تھی کیونکہ اس حالت میں تو اور کچھ یاد نہیں آتا ۔ اور حضورؐ کو نماز میں بچوں کے رونے کی آواز سنائی تھی ۔ تو معلوم ہوا کہ یہ حالت استغراق کمال نہیں ۔ کیونکہ کمال ہوتی تو حضورؐ کو ضرور حاصل ہوتی ۔ دوسری دلیل یہ ہے اور تفصیل وہی ہے اس دلیل کی کہ حق تعالی نے انسان کو مکلف پیدا کیا ہے اور تکلیف اس میں ہے کہ ہوش اور کشا کشی میں اللہ تعالی کی طرف رجوع اختیار کرے ۔ استغراق کی مثال تو کلورا فارم کی سی ہے کہ سونگھا دیا اور اب کوئی پتہ ہی نہیں اس کا اور طرف خیال نہ کرنا کوئی کمال نہیں ۔ کمال تو یہ ہے کہ ہوش میں ہو اور آپریشن ہو رہا ہو اور کچھ پروا نہ کرے ۔ تصور شیخ طریق نقشبندیہ ہے فرمایا تصور شیخ اصل میں یکسوئی کیلئے تجویذ کیا گیا تھا ۔ مگر اب جزو طریق نقشبندیہ ہو گیا اور چشتیہ کے طریق میں کوئی بدعت نہیں ۔ بعض نے غںاء ( گانا ) کو غلبہ حال میں اختیار کیا ۔ مگر وہ طریق میں داخل نہیں ہے اور لطائف اور دوائر جو نقشبندیہ کے ہاں ہیں ۔ حضرت حاجی صاحبؒ فرماتے تھے کہ گو یہ حجب نورانی ہیں ۔ مگر یہ بھی مضر ہیں ۔ کیونکہ حجب ظلمانی سے حجب نورانی زیادہ مضر ہوتا ہے اس کو مقصود نہیں سمجھا جاتا اور اس کو مقصود سمجھا جاتا ہے ۔ ایک گھڑی ہوئی حدیث ایک مولوی صاحب نے کہا کہ ایک حدیث لوگوں نے مشہور کر رکھی ہے من لا شیخ لہ فشیخہ الشیطان " جس کا کوئی پیر نہ ہو تو اس کا پیر شیطان ہے ،،