ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
یا توجہ الی الذکر ہو ( اس پر احقر نے عرض کیا کہ تمام قراءت میں بواسطہ ذکر کے احضار کی کیا صورت ہو گی ـ فرمایا جہری نماز میں تو الفاظ کو غور سے سننا یا ان کے معنی کی طرف خیال کا لے جانا اور سری میں الفاظ خیالی کا احضار ـ یا وہی کعبہ کی طرف توجہ ـ اور بعض اکابر نے حضرت ابو ہریرہ کے قول اقراء فی نفسک یا فارسی کا یہی محمل فرمایا ہے یعنی خیالی الفاظ اور احضار کی ایک سہل نظر میرے خیال میں آئی ہے جو بہت ہی سہل معیار ہے وہ یہ کہ مثلا قرآن مجید کسی کو یاد ہو مگر کچا ہو تو وہ جس طرح سوچ سوچ کر پڑھتا ہے بس اتنا سوچ لینا یہ احضار کی تحصیل کیلئے کافی ہے ـ اس سے زیادہ کاوش کی حاجت نہیں ـ حال اختیاری نہیں فرمایا حال اختیاری نہیں مگر جن اسباب سے اکثر حال پیدا ہو جاتا ہے وہ اختیاری ہیں پس یہ خود غیر اختیاری ہے مگر حق تعالی کی عادت یہ ہے کہ مباشرت اسباب کے بعد اکثر حال پیدا فرما دیتے ہیں اگرچہ لازم نہیں جیسے نکاح کے بعد بچہ پیدا ہونا کہ غیر اختیاری ہے اور اسباب اخیتاری ہیں اور ترتب لازم نہیں ـ پس بایں معنی حال اختیاری ہے اور پہلے معنی کے اعتبار سے اختیاری نہیں جیسا مثلا ابصار فی ذاتہ غیر اختیاری ہے کیونکہ باوجود فتح عین و محاذات کے عدم ابصار غیر اختیاری ہے تو اس کی ضد یعنی ابصار بھی غیر اخیتاری ہو گا کیونکہ اختیاری کی ضد بھی اختیاری ہوتی ہے ـ اس لئے کہ قدرت صدین کے ساتھ متعلق ہوتی ہے مگر باوجود اس کے ابصار کو اختیاری کہتے ہیں کیونکہ اس کے اسباب مثلا فتح العین بحالت محاذات مبصر و وجود ضوء و غیر اختیاری ہیں تو اسباب کے اختیاری ہونے سے اس کو اختیاری کہا جاتا ہے ـ پس اسی طرح حال اگرچہ خود غیر اختیاری ہے مگر چونکہ اس کے اسباب اختیاری ہیں اس لئے اس اعتبار سے اس کو بواسطہ اختیاری کہا جا سکتا ہے ـ ذکر کی تلقین تلاوت کا مقدمہ ہے فرمایا مشائخ جو زیادہ تر ذکر بتلاتے ہیں زیادہ کرنے کو نہیں بتلاتے تو وجہ اس کی یہ ہے کہ ابتداء میں زیادہ مقصود صرف یکسوئی پیدا کرنا ہے اور تلاوت سے خاص شان کی