ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
اور دوسری آیت میں مشیت تشریعیہ بمعنی رضا مراد ہے ـ کفار اپنے دین کی حقانیت کے مدعی تھے اور استدلال میں یہ کہتے تھے کہ اگر ہمارا کفر و شرک اللہ تعالی کے مرضی و پسندیدہ نہ ہوتا تو ہم شرک نہ کرتے یعنی ہم سے صادر نہ ہونے دیتے ـ حق تعالی اس مشیت کی نفی فرما رہے ہیں ـ پس تعارض نہ رہا اس جواب سے سمجھ میں آ گیا ہو گا کہ اس جواب کے سمجھنے کیلئے اس وقت فنون درسیہ کی ضرورت ہے ـ اس دوسری آیت کو دیکھ کر یہ بھی معلوم ہو گیا ہو گا کہ قرآن کا طرز مناظرانہ نہیں ہے ـ کیونکہ کفار کے اس قول کا ابطال کسی دلیل مناظرانہ سے نہیں فرمایا ورنہ اس طرز پر جواب یہ ہوتا کہ اس تمہارے استدلال سے ہماری رضا ثابت نہیں ہوتی کیونکہ اسی دلیل سے تو تہمارے مزعوم کا خلاف بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ مومنین سے عدم شرک بھی واقع ہو رہا ہے تو لازم آتا ہے کہ تمہارے مزعوم اور اس کی نقیض دونوں پر اللہ تعالی کی رضا ثابت ہوئی ـ اور ظاہر ہے کہ یہ غلط ہے سو اگر قرآن کا طرز مناظرانہ ہوتا تو جواب کا یہ طرز ہوتا مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ صرف اس کے بطلان کا حکم فرما دیا ـ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن میں محض شفقت کا طرز اختیار فرمایا گیا ہے ـ قرآن شریف اور محاورات عرب میں ظن کے وسیع معنی فرمایا کتب درسیہ کے بعد قرآن شریف کی تفسیر کو پڑھنے سے لغات اور اصطلاحات میں خلط ہو جاتا ہے اور اس سے بہت سی غلطیاں ہو جاتی ہیں مثلا لفظ ظن کو قرآن شریف میں ملاحسن کے ،، ظن " کی اصطلاح میں سمجھ گئے پھر اس سے احکام میں خبط ہونے لگا حالانکہ قرآن شریف میں اور اسی محاورات عرب میں ظن یقین سے لے کر خیالات باطلبہ تک بولا جاتا ہے مثلا انھا لکبیرۃ الا علی الخاشعین ، الذین یظنون میں ظن بمعنی یقین ہے اور ان نظن الا ظنا میں ظن بمعنی خیالات باطلہ متعمل ہے اور باقی مراتب کی مثالیں تم خود سمجھ لو گویا علم کے جمیع مراتب پر بد ظن کا اطلاق آتا ہے جیسا قرینہ ہو ـ اب یہ اشکال نہ رہا کہ ان الظن لا یغنی من الحق شیئا سے بعض مسائل کی تخصیص کی جائے کیونکہ فروع فقہیہ میں تو ظن بمعنی