ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
|
ملفوظات حکیم الامت جلد ـ 26 ـ کاپی ـ 5 صرف قرآن کو عام تصانیف کی طرح سمجھنا ہے ـ اگر اس کو محاورہ کے طرز پر رکھیں تو پھر اس کی بعینہ ایسی مثال ہو گی کہ باپ کھانے کے وقت اپنے بیٹے سے کوئی تقریر کر رہا ہو ابھی تقریر ختم نہیں ہوئی کہ بیٹا جلدی جلدی کھانے لگا ـ باپ اس تقریر کو چھوڑ کر اس تقریر کے درمیان بیٹے کو متنبہ کرے گا کہ جلدی جلدی مت کھاؤ اور اس کے بعد پھر بد ستور تقریر کا سلسلہ جاری کر دے گا ـ یہ انتظار نہ کرے گا کہ تقریر کو ختم کر کے کھانے کے متعلق پھر بیٹے سے خطاب کرے اور یہ انتظار نہ کرنا غایت شفقت ہو گی ـ پس اسی طرح حضورؐ نے نزول وحی کے وقت اس کے یاد کرنے کیلئے جلدی جلدی پڑھنا شروع کر دیا تھا جیسا کہ احادیث میں آیا ہے اس لئے پہلی تقریر بند کر کے اس سے آپ کو روک دیا اس کے بعد پھر وہی تقریر یعنی قیامت کا مضمون شروع فرما دیا ـ اس مضمون کو غالبا صاحب کشاف نے بھی لکھا ہے طالب علموں کی اس عادت کو کہ قرآن کا طرز عام تصانیف کا سمجھتے ہیں دیکھ کر میں کہا کرتا ہوں کہ ضروری صرف و نحو اور کسی قدر ادب پڑھا کر قرآن شریف کا سادہ ترجمہ پڑھا دینا مناسب ہے کیونکہ کتب درسیہ کی تحصیل کے بعد دماغ میں اطلاحات رچ جاتی ہیں پھر قرآن شریف کو اسی طرز پر منطبق کرنے لگتا ہے ـ اسی طرح پر اول قرآن شریف کا ترجمہ پڑھ کر پھر فنون ضرور پڑھے کیونکہ بعض مقامات قرآنیہ بدوں فنون کے حل نہیں ہوتے ـ مثلا سورہ انعام میں کفار کے متعلق فرمایا ہے لو شاء اللہ ما اشر کنا ( الآیۃ ) اس میں اس کا صاف اثبات ہے کہ ان کا شرک ہماری مشیت سے ہے اگر ہم عدم اشراک کو چاہتے تو عدم اشراک متحقق ہوتا اور اسی صورت میں کفار کا قول نقل فرمایا لو شاء اللہ ما اشر کنا الایہ اور پھر اس پر رد فرمایا جس میں اس کی نفی ہے بظاہر ان دونوں آیتوں میں تعارض ہے اور اس کا جواب یہ ہے کہ پہلی آیت میں مشیت تکوینیہ بمعنی ارادہ مراد ہے یعنی تکوینی طور پر حکمت و مصلحت کے لئے ہم نے ان کے شرک کا ارادہ کیا اور دلیل اس کی اس آیت کا سیاق و سباق ہے چنانچہ اوپر ارشاد ہے اتبع ما اوحی الیک اور بعد میں ارشاد ہے وما جعلنا ک علیھم حفیظا ـ ان میں حضورؐ کو تسلی فرما رہے ہیں کہ تبلیغ کے بعد آپ مغموم نہ ہوں کیونکہ ان کے شرف کا ارادہ بنا بر حکمت کے ہم نے کیا ہے پس اس مشیت کا تو اثبات ہے