ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
|
ہے ۔ اور جو عالم صوفی ہو یا جو صوفی عالم ہو اس کو طرفین کی حدود کے لحاظ کرنے پڑتے ہیں ۔ وہ طرفین کی حدود کا لحاظ کر کے حکم لگاتا ہے ۔ اور وہ مشکل میں ہوتا ہے ۔ استحضار استعداد مضر ہے فرمایا حضرت حاجی صاحب ؒ میں تواضع بھی کمال درجہ میں تھی ۔ سالک کو فرما دیتے تھے کہ یہ جو کچھ تمہارے پاس ہے تمہاری استعداد کا ظہور ہے ۔ میرا اس میں کیا ہے ۔ یہ تو تواضع تھی ۔ پھر تبیت کے لحاظ سے فرماتے تھے لیکن تم یہ نہ سمجھنا کہ یہ میری استعداد کا ظہور ہے ۔ یہ سمجھنا تم کو مضر ہو گا ۔ فرمایا اس کی مثال ایسی ہے کہ بط کا انڈنا اگر مرغی کے نیچے رکھ دیا جائے تو اس کے سینہ کی گرمی سے بچہ پیدا ہو جائے گا پھر سمندر میں وہ بچہ تیرتا پھرے گا اور مرغی کنارہ پر کھڑی دیکھتی رہے گی ۔ مگر پھر بھی اس بچہ میں مرغی کی گرمی سے یہ وجود اور تیرنا آیا ۔ اگر مرغی کی صحبت نہ ہوتی تو بچہ انڈے کے اندر گل سڑ کر تباہ ہو جاتا ۔ گو استعداد اس میں تھی مگر مرغی کی بدولت وہ ظہور میں آئی ۔ اسی طرح اگر کوئی مرید کمالات میں شیخ سے بڑھ جائے تو بھی اس کا ممنون رہے ۔ اور اگر گستاخی کرے تو سب کمالات فورا سلب ہو جائیں گے اور کورا رہ جائے گا ۔ اگر اپنے کمال شیخ سے زائد بھی ہوں تو ان کا عقیدہ رکھنا تو منع نہیں مگر استحضار منع ہے اس سے عجب پیدا ہو جاتا ہے تو مرید کو چاہیے کہ کمالات میں اپنی استعداد پر نظر نہ کرے بلکہ شیخ کی صحبت پر نظر کرے کہ اسی کی بدولت یہ ملا ہے ۔ استحضار استعداد مضر ہے عقیدہ کمالات مضر نہیں ۔ اس تحقیق سے دیوان حافظ کے ایک شعر کا مطلب بھی کھل گیا ؎ گناہ گرچہ نبود اختیار ما حافظ لیک تو در طریق کوش کہ اس گنہ ما ست مطلب یہ کہ صدور گناہ میں دو اعتبار ہیں ۔ ایک خلق ۔ دوسرا کسب ۔ خلق کے لحاظ سے حق تعالی کی طرف منسوب ہیں ۔ مگر ادب یہ ہے کہ اس طرف توجہ نہ کرے اور کسب کے لحاظ سے بندہ کی طرف منسوب ہیں ۔ اس حیثیت سے لحاظ کرے ۔ سلوک میں حدود پر مداومت کرنا مشکل ہے فرمایا سلوک میں شریعت پر عمل کرنا تو مشکل نہیں ۔ بلکہ حدود پر مداومت کرنا اور ان