ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
جانثاری کی مثال فرمایا میں بعض وعظوں میں ایک حکایت اور مثال بیان کیا کرتا ہوں وہ یہ کہ ایک رئیس کے پاس ایک باور چی نوکر ہے اور بہت جانثار ہے ۔ روٹی بھی پکاتا ہے اس کی سواری بھی چلاتا ہے اور دباتا بھی ہے ۔ اور تنخواہ دس روپیہ ہے اتفاق سے اس کے گھر کوئی مہمان آ گیا ۔ اس نے باور چی کی خدمات اور سلیقہ دیکھ کر تحقیق کی اور باور چی سے دریافت کیا کہ تنخواہ کتنی ہے ۔ اس نے کہا کہ دس روپیہ ۔ مہمان نے کہا کہ چلو ہم تم کو پچیس روپیہ دیں گے اور چار آدمی کا کھانا بھی دیں گے ۔ اب میں مخاطب سے پوچھتا ہوں کہ وہ باور چی کیا کرے تمہارے فیصلے سے ۔ میں فیصلہ کروں گا ۔ ظاہر یہ ہے کہ جانثاری کا تقاضا تو یہی ہے کہ نہ جائے ۔ اب بتلاؤ کہ مولوی حق تعالی کے ساتھ وہ معاملہ کرتے ہیں ۔ جو باور چی نے اپنے مالک سے کیا اور افسوس کہ تم نے حق تعالی کی وہ قدر نہ کی جو باور چی نے اپنے آقا کی کی ۔ ترقی کونسی مانع ہے فرمایا ہنگو میں وعظ ہوا ۔ لکل وجھۃ ھو مولیھا فاستبقوا الخیرات کا بیان ہوا ۔ میں نے کہا صاحبو ! ہم ترقی کے مخالف نہیں ۔ تم ترقی کو مندوب و مباح کہتے ہو ۔ ہم واجب کہتے ہیں ۔ تم واجب بھی کہو تو عقلی ہو گی اور ہم واجب شرعی کہتے ہیں کہ ترک پر گناہ ہو گا ۔ پھر تم اور ہم اس پر بھی متفق ہیں کہ مطلق ترقی مطلوب نہیں ۔ کیونکہ بدن پر ورم ہو تو علاج کراتے ہیں ۔ تو معلوم ہوا کہ ترقی وہ مقصود ہے جو نافع ہو اور ضار نہ ہو ۔ بس اتنے حصہ میں جھگڑا ہے کہ نافع کونسا حصہ ہے تم نافع اور ضار صرف دنیاوی امور کو سمجھتے ہو اور ہم جو دین میں ضار ہو اس کو ترقی فی الورم کی طرح مضر سمجھتے ہیں ۔ اسی طرح اشارہ فی الخیرات میں ہے ۔ باقی اگر شبہ کیا جائے کہ مولوی جائز ترقی کا وعظ بھی نہیں کہتے ۔ تو جواب یہ ہے کہ ہم اس وقت کہتے جب تم نہ کرتے ۔ تم تو اس میں اس قدر مشغول ہو کہ حدود سے نکل گئے ہو ۔ اس کے بعد قارون کے قصہ سے بھی اس کو ثابت کیا فخرج علی قومہ فی زینتہ ۔ آ گے چل کر فرمایا قال الذین یریدون الحیوۃ الدنیا ۔ یہ تو ترقی یافتہ کی حالت ہے اور