ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
حضورؐ فرماتے ہیں کہ رد نہ کیا کرو اور علت یہ بیان فرمائی فانہ خفیف المحمل اس سے معلوم ہوا کہ ثقیل المحمل کا رد کر دینا جائز ہے ـ حضرت شاہ عبد العزیز کی بصیرت فرمایا دہلی میں ایک خاندان کے لوگوں کے نام بسم اللہ ، بارک اللہ ، ماشاء اللہ وغیرہ کے طریق پر تھے ـ ایک لڑکی پیدا ہوئی اس کا نام انہوں نے الحمد للہ رکھا شاہ عبد العزیز صاحبؒ نے سن کر فرمایا اب یہ خاندان ختم ہو جائے گا ـ چنانچہ یہی ہوا اور پوچھنے پر فرمایا کہ اس لڑکی کا نام سن کر فورا اس آیت کو حظور ہوا و اخر دعواھم ان الحمد للہ رب العلمین ـ اس سے میں نے یہی سمجھا ـ حضرات صحابہ کا فہم فرمایا صحابہ کرام کیسے فہیم تھے کہ ان کو کچھ شبہات ہی پیش نہ آتے تھے ورنہ وہ ضرور سوال کرتے اسی لئے بہت کم جگہ یسئلونک آیا ہے اور جہاں آیا بھی ہے وہاں سوال کے تابع ہو کر جواب نہیں دیا گیا بلکہ حکمت کے موافق جواب دیا ہے چنانچہ ایک جگہ یسئلونکہ عن الاھلۃ کے جواب میں جو ارشاد ہے وہ بظاہر سوال کے مطابق نہیں ہے کیونکہ سوال علت سے تھا اور جواب حکمت سے دیا گیا ہے اس سے صحابہ کرام نے زیادہ احتیاط فرمائی اور صحابہ کی خوش فہمی یہاں تک بڑھی ہوئی تھی کہ سورہ انعام میں ایک جگہ لو شاء اللہ ما اشرکنا کفار کا قول نقل کر کے آ گے اللہ تعالی نے اس کا رد فرمایا ہے اور دوسری جگہ یہی مضمون لو شاء اللہ ما اشرکوا خود ارشاد فرمایا جس میں بظاہر تعارض ہے مگر تطبیق یہ ہے کہ کفار کے قول میں مشیت بمعنی رضا ہے یعنی وہ کہتے تھے کہ حق تعالی ہمارے شرک پر راضی ہے اس کا تو رد فرمایا گیا اور لو شاء اللہ ما اشرکوا میں مشیت تکوینی ہے اور اسمیں حضورؐ کو تسلی دی ہے کہ آپ غم نہ فرماویں تکوینا یہی ہونا تھا تو اس فرق کو صحابہ کرام خود سلامت فطرت سے سمجھ گئے ورنہ وہ ضرور سوال کرتے ـ اور یہ فہم کامل صرف متکلم کی برکت سے عطا ہوا تھا ـ سو اول تو یہ خوش فہمی سے ان کو شبہات ہی نہ ہوتے تھے اور اگر کچھ ہوتا بھی تو غایت