ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
جنتی ہونا قطعی نہیں ۔ لوگ اس سے بھڑک گئے ۔ مقدمہ میرے پاس آیا ۔ ہر فریق یہ خیال کرتا تھا کہ میں اس کی تائید کروں گا ۔ میں نے پہلے اس عامی سے دریافت کیا کہ تم کیا کہتے ہو ؟ اس نے کہا کہ میں ان کو جنتی کہتا ہوں ۔ میں نے کہا بالکل ٹھیک ہے اگر وہ جنتی نہ ہوئے تو پھر اور کون جنتی ہو گا ۔ پھر میں نے کہا کہ تمہارے پاس اس کی دلیل کیا ہے ۔ کہا بڑے بڑے عالم اور بزرگ کہتے ہیں پھر میں نے کہا حضرت صدیق رضی اللہ عنہ تمہارے نزدیک جنتی ہیں ۔ کہا ہاں ۔ میں نے کہا ان کے جنتی ہونے کا کیا ثبوت ؟ کہا حضورؐ نے فرمایا میں نے کہا بالکل ٹھیک ہے مگر حضورؐ کے قول اور بزرگوں کے قول میں کچھ فرق ہے ؟ کہا ہاں ۔ میں نے کہا پھر حضرت صدیق اور حضرت پیر صاحبؒ کے جنتی ہونے میں بھی وہ فرق ہو گا جو ان قولوں میں ہے ۔ کہا ہاں ۔ پھر میں نے مولوی صاحب واعظ سے کہا کہ صاحب ! یہ بھی ہی کہتا ہے جو تم کہتے ہو ۔ یہ بے چارا ۔ ملا حسن ( علم منطق ) کا ظن نہیں جانتا تھا ورنہ اس کے دل میں بھی وہ فرق ہے گو اس کا نام اس نے یقین رکھا ہو ۔ اور فرمایا ہمارے اکابر کا طرز یہ تھا کہ عوام کو تشویش میں نہ ڈالتے تھے ۔ عوام کو تشویشات سے بچانا فرمایا عوام کی رعایت حضورؐ نے فرمائی ۔ فرمایا لو لا قومک حدیث عھد بالجھالۃ ۔ ( اگر تمہاری قوم کو جاہلیت کے زمانہ سے قرب نہ ہوتا ) ۔ تو محض لوگوں کو تشویش میں پڑنے سے بچا لیا ۔ مگر بعض دفعہ عوام کی رعایت نہیں کی جاتی جیسا حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے نکاح میں حضورؐ نے تو تشویش سے لوگوں کو بچانے سے پرہیز فرمایا مگر حق تعالی نے اس کی رعایت نہ فرمائی ۔ یہ کام بہت مشکل ہے کہ کس جگہ عوام کی رعایت کرنی چاہیے اور کس جگہ نہ چاہیے ۔ میری رائے میں اس کا قاعدہ یہ ہے کہ جہاں دین کا نقصان ہو وہاں عوام کی رعایت نہ ہو مسئلہ صاف صاف ظہر کر دے اور جہاں دین میں تشویش نہ پڑے وہاں عوام کی رعایت کی جائے ۔ فرمایا حضرت زینب کے قصہ میں ایک شخص نے اعتراض کیا تھا ۔ اس کا جواب اس وقت سمجھ