ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
نسبت موقوف ہے علم موضوع پر اور موضوع اس قول میں " کلام اللہ ،، ہے ۔ ہم موضوع ہی کو نہیں جانتے تو لا عین ولا غیر کا قطعی ثبوت اس کیلئے کیسے ہو گا ؟ اسی واسطے سلف نے ایسے مباحث میں گفتگو نہیں کی اور نہ ان کی حاجت ہوئی ۔ متکلمین نے ضرورت کے لئے گفتگو کی ہے وہ بھی حق یہ ہے کہ درجہ منع میں ہونی چاہیے ۔ اور ان کو مستقل دعاوی نہ قرار دیا جائے کیونکہ یہ نہایت خطرناک ہے ۔ لیکن متکلمین متاخرین کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے مباحث کلام کو مستقل دعاوی قرار دے کر ان پر دلائل قائم کئے ہیں مگر یہ ہے نہایت خطرناک ۔ اور صفات کے بارے میں ابن عربیؒ نے فرمایا ہے کہ صفات کو عین ذات کہنا اقرب ہے ۔ ان کا مطلب یہ ہے کہ اگر صفات میں کوئی کلام کرے تو لا عین ولا غیر سے عین کہنا اقرب ہے ۔ ورنہ اسلم ان کے نزدیک بھی یہی ہے کہ اس میں گفتگو نہ کی جائے ۔ رذائل کے مقتضا پر عمل نہ کرنے کے دو درجے فرمایا حقیقت سلوک یہ ہے کہ رذائل کے مقتضی پر عمل نہ کرے ۔ پھر اس میں دو درجے ہیں اول یہ کہ رذائل کے مقتضا پر عمل نہ کرے مثلا تکبر کا مقتضا یہ ہے کہ جس سے اپنے آپ کو بڑا سمجھے اس کے عیوب بیان کرے ، اس سے خدمت کرائے و غیرہ ۔ یہ تو ہوا رذیلہ کے مقتضا پر عمل کرنا ۔ اور عمل نہ کرنا یہ ہے کہ اس کے عیوب بیان نہ کرے ، نہ اس سے خدمت کرائے ۔ یہ ادنی درجہ ہے اتنے پر عمل کرنے کی بنا پر مامور بہ ادا ہو گیا ۔ وہ شخص ماخوذ نہ ہو گا ۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ رذائل کے خلاف مقتضی پر عمل کرے مثلا بجائے عیوب کے اس کے کمالات بیان کرے ، اس کی خدمت کرے ، جوتے سیدھے کرے یہ درجہ اعلی ہے ۔ اس سے نفس میں ایک وقت درستی ہو جائیگی ۔ نفس شائستہ ہو جائے گا ۔ صرف وظیفوں سے کچھ نہیں ہوتا اور نہ تقلیل کلام و غیرہ سے کچھ ہوتا ہے ۔ بس یہ سارے سلوک کا خلاصہ ہے جس کیلئے مشائخ بڑے بنتے ہیں ۔ مگر بعض دفعہ جزئیات میں اور بعض دفعہ اعمال میں شوائب ہو جاتے ہیں ۔ اس واسطے شیخ کو اطلاع دینی ضروری ہوتی ہے ۔ جیسا علاج میں طبیب سے مشورہ لیا جاتا ہے اسی طرح کرنے سے نفس ایک مدت کے بعد شائستہ بن جاتا ۔ مگر پھر بھی شائستہ گھوڑے کی طرح کبھی کبھی الف ہو جاتا ہے ۔ مگر تھوڑی تنبیہ سے سیدھا ہو جاتا ہے سہولت سے احکام