ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
( ایک شخص نے کسی بات کا مشورہ دریافت کیا جواب میں ) فرمایا کہ یہ میرا معمول نہیں ـ پھر فرمایا کہ لوگوں کو مشورہ کی حقیقت معلوم نہیں ہے ـ اس کی حقیقت یہ ہے کہ دو شقوں میں تردد ہو اور ہر شق میں مفاسد اور منافع ہوں اور خود کسی جانب کو ترجیح نہ دے سکے ـ اب لوگ کوشش نہیں کرتے اور فوائد و مضار شقوں ( نقصانات ) کے لکھتے نہیں اور میں خالی الذہن ہوتا ہوں تو کیسے مشورہ دوں ـ اس میں بھی عقیدہ کا قساد ہے ـ یوں خیال کرتے ہیں کہ بس جو کہہ دوں گا وہی خیر ہو گا ـ حالانکہ حضورؐ سید الانبیاء و سید الموجو دین تھے ان کو بھی حکم ہوا کہ مشورہ کرو ـ اور بعض دفعہ لغزش بھی ہوتی ہے اور جب حضورؐ ہی نے فرمایا : انتم اعلم با مور دنیا کم " تم دنیا کے معاملات کو زیادہ جانتے ہو ،، ـ تو اور کسی کی نسبت کیا بھروسہ ہے کہ جو کہے گا وہ ہو جائے گا ـ دور حاضر کی تہذیب سراسر بے تہذیبی ہے فرمایا کہ " حفیظ ،، نام کے ایک شاعر تھے وہ یہاں آئے اور بیعت ہوئے انہوں نے ایک کتاب لکھی اس میں یہ لکھا کہ ساری عمر ہم جس کو تہذیب سمجھتے تھے تھانہ بھون جا کر معلوم ہوا کہ سراسر بے تہذیبی ہے ـ حقیقی تہذیب وہاں ہے ـ مستفتی کو ایک ہدایت ایک شخص نے سوال لکھا اور یہ لکھا کہ کتب احناف سے جواب دیا جائے ـ فرمایا کہ میں نے جواب دیا کہ مجیب کے متعلق یہ شبہ کیوں ہوا کہ اور کتابوں سے جواب دے گا ـ اور فرمایا کہ اگر اعتبار نہ ہو تو ہم سے نہ پوچھ ـ ملا جیون اور شاہ جہاں کی حکایت فرمایا کہ شاہ جہاں کے وقت میں بعض علماء نے فتوی حلت حریر کا دے دیا تھا مگر بادشاہ کو اعتبار نہ ہوا ـ وجہ یہ بیان کی کہ میدان جنگ میں حریر جائز ہے اور مومن عزم جنگ میں ہوتا ہے اور عزم قائم مقام فعل کے ہے مگر بادشاہ کو اطمینان نہ ہوا ـ ملا جیون کے پاس فتوی بھیجا ـ انہوں نے کہا کہ جامع مسجد میں جواب دوں گا ـ ممبر پر کھڑے ہو کر فرمایا کہ مفتی