ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
میں جب کوئی قید اپنی طرف سے لگائے تب اعتراض پڑتا ہے ۔ شارع علیہ السلام کا اصلی مقصود فرمایا ۔ شارع علیہ السلام کا اصلی مقصود یہ ہے کہ لوگ کام کی بات میں لگ جاویں ۔ اسی واسطے غیر مقصودی مضامین کی قرآن مجید اور احادیث شریفہ میں تفصیل نہیں فرمائی ۔ اس میں شفقت ہے ۔ اب اس تقریر سے بہت مسائل حل ہو گئے ۔ مثلا ستاروں کا وجود کہ کس آسمان پر ہے ؟ یہ کوئی مقاصد میں سے نہیں ۔ اسی طرح مسئلہ قدر بھی ہے ۔ غایت قدر کی بیان فرمائی ۔ مثلا لکی لا تاسوا علی ما فا تکم ( تا کہ جو تم سے فوت ہو جائے اس پر رنج نہ کرو ) اور اس غایت کے معلوم کرنے کے بعد اجمالی ایمان بالقدر کافی ہے ۔ اور حضورؐ نے صحابہ کو منع فرمایا کہ قدر میں نزاع نہ کرو ۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ صحابہ سمجھ نہ سکتے تھے ۔ صحابہ تو اس سے زیادہ مسائل صفات سمجھتے تھے بلکہ وجہ یہ تھی کہ تفصیل کوئی ضروری نہیں ۔ لفظ پیدا کر ڈالنا میں فعل کی تحقیر ہے فرمایا مولانا اسمعیل شہیدؒ کی کتاب سے لوگوں نے مواقع تلاش کر کر کے ان عبارتوں میں غلط تاویل کر کے خود غلط معنی ڈال دیے ۔ ان کے مقصود میں کوئی بھی وجہ غلطی کی معلوم نہیں ہوتی ۔ فرمایا کہ مولانا احمد علی صاحبؒ سہارنپوری کی خدمت میں " تقویۃ الایمان ۔ کا یہ جملہ کسی سائل نے پیش کیا ۔ جس میں یہ تھا کہ " اگر خدا تعالی چاہتا تو محمدؐ جیسے کروڑوں پیدا کر ڈالتا ۔ سائل نے کہا کہ " ڈالتا ،، کا لفظ اس میں نبی ؐ کی تحقیر ہے اور یہ کفر ہے ۔ مولانا احمد علی صاحبؒ کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ جواب نہایت مسکت ہے ۔ اور اکابر کے جواب ایسے ہی ہوتے تھے جس سے حقیقت واضح ہو جائے اور شبہ کی جڑ کٹ جائے گو سائل خاموش ہو یا نہ ہو ۔ مولانا احمد علی صاحب نے فرمایا کہ بے شک اس میں تحقیر ہے مگر فعل کی نہ مفعول کی ۔ اگر کوئی طالب علم جواب دیتا تو یہ کہتا کہ اس لفظ میں تحقیر کہاں ہے ؟ مادہ کے اعتبار سے یا ہیئت کے اعتبار سے ؟ ہر شق کی تم دلیل پیش کرو تو اس تقریر گو بند ہو جاتا ۔ مگر قیامت تک اس کو تسلی نہ ہوتی ۔ کیونکہ وہ تو محاورات پر موقوف