ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
چشتیہ کے ہاں بے سامانی ہی وقار ہے فرمایا نقشبندیہ کے ہاں یہ تعلیم بھی ضروری ہے کہ شیخ ظاہری تجمل و وقار سے رہے گو یا شاہی سامان میں رہے نیت اس میں بھی بہتر ہے تا کہ مریدین کی نظر میں عظمت ہو اور اس عظمت سے اس کو فائدہ ہوتا ہے ـ مگر چشتیہ کے ہاں اس کا کچھ خیال نہیں بلکہ وہاں تو جلنا اور مرنا ہی ہے ان کے ہاں ظاہری شان کچھ نہیں اور حقیقت تو یہ ہے کہ اصل وقار افادہ سے پیدا ہوتا ہے جب مستفیدین کو فائدہ ہو گا تو وقار خود بخود پیدا ہو گا اور اگر ان کو فائدہ ہی کچھ نہیں پہنچتا تو ظاہری وقار سے کیا ہو گا ـ چشتیہ کے ہاں بے سامانی ہی سے وقار ہے ـ اور حقیقت یہ ہے کہ بعض اشیاء موثر بالکیفیت ہوتی ہیں اور بعض موثر بالخاصہ ہوتی ہیں وقار ظاہری تو موثر بالکیفیت ہے اور ترک وقار موثر بالخاصہ ہے بعض چشتیہ پر جن کی قلندرانہ شان ہے ( ان کی تعریف عنقریب آتی ہے ) ایک شبہ یہ بھی وارد ہوا کرتا ہے کہ ان کے ہاں اعمال کم ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اعمال دو قسم ہیں ایک ظاہری مثل تلاوت اور نوافل وغیرہ اور ایک باطنی مثل ذکر قلبی اور فکر اور نعماء الہی کا استحضار وغیرہ ـ یہ تو اعمال قلندرن میں بہت ہیں بلکہ کوئی وقت ایسا نہیں گزرتا کہ وہ عمل میں نہ ہوں ـ تو اس طرح کے اعمال ان کے یہاں بہت ہیں البتہ چشتیہ عموما بد نام ہیں وہ بھی زیادہ تو صرف سماع کی بدولت مگر ان کے طریق میں داخل نہیں جو اعتراض کیا جائے - بعض نے غلبہ حال میں اور بعض نے بعض مصالح کے سبب خاص قیود کے ساتھ سنا ہے مگر اب تو دوکاندار غلو بہت کرتے ہیں ـ ایک صاحب زادہ صاحب نے سماع گنگوہ میں اہل سماع مشائخ کی دعوت کی جب جمع ہو گئے تو ایک عجیب سوال کیا ـ حضرات مجھ کو سماع کی نسبت کچھ عرض کرنا ہے وہ یہ کہ کیا کسی اہل طریق نے کسی باطنی کیفیت کے حاصل کی غرض سے کسی مرید کو کبھی سماع کی تلقین بھی کی ہے جس طرح اذکار و اشغال کی تلقین کرتے تھے ـ جواب ظاہر ہے کہ کبھی کسی نے کسی کیفیت محمودہ کے حاصل کرنے کیلئے یہ تجویذ نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ یہ داخل طریق نہیں ہے ـ اور اپنی ذات میں کوئی مفید طریق نہیں ہے ـ