ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
مشترک ہے ۔ یعنی عدم توجہ الی الصلوۃ ۔ مگر علت العلت میں فرق ہے ۔ وہ یہ کہ ہم کو توجہ الی الشے ہو اسفل من الصلوۃ ہے ( یعنی نماز سے نیچے درجہ کی طرف ) اور انبیاء کو توجہ الی الشے ہو اعلی من الصلوۃ ہے ( یعنی نماز سے اونچے درجہ کی چیز کی طرف ) ۔ پھر فرمایا کہ یہ وجہ بعد میں نظر سے بھی گزری اور جی بہت خوش ہوا ۔ لوگوں کا جی تو شاید ایسی چیز سے زیادہ خوش ہوتا ہو جو پہلوں کی سمجھ میں نہ آئی ہو ۔ اور میرا جی ایسے علوم سے خوش ہوتا ہے جس کی طرف سلف بھی لوگ بھی گئے ہوں ۔ کیونکہ جو علوم سلف کے خلاف ہوں وہ بدعت ہوں گے تو جب بدعت حاصل ہو تو اس پر کیا خوشی ہو گی ؟ نماز میں راحت کی دو قسمیں ہیں فرمایا ارحنا یا بلال بالصلوۃ ( ہم کو نماز سے آرام پہنچاؤ اے بلال ) میں راحت کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک راحت فی الصلوۃ ۔ دوسری راحت بعد فراغ الصلوۃ ۔ پھر اس میں دو وجوہ ہیں ۔ ایک راحت اس لیے کہ حق تعالی کا فرض ادا ہوا ۔ دوسرا اس لئے کہ پاپ کرنا ۔ پہلا درجہ خواص کا ہے ۔ دوسرا درجہ عوام کا ۔ راحت فی الصلوۃ کا عنوان میں نے تجویذ کیا ہے " راحت لقاء حق ،، اور راحت بعد فراغ الصلوۃ کا عنوان ہے " راحت حصول رضاء حق ،، ۔ انگریزوں میں عقلی تدفیق کا مادہ بہت کم ہے فرمایا انگریزوں میں عقلی تدفیق کا مادہ بہت کم ہے اور صناعت اور تجربہ کا مادہ بہت ہے ۔ ایک مولوی صاحب سہارنپور میں ایک انگریز سے ملاقات رکھتے تھے اور وہ انگریز عربی کا عالم بھی تھا ۔ تو اس انگریز نے مولوی صاحب سے کہا کہ قرآن شریف سے معراج میں آسمانوں پر جانا ثابت نہیں ہوتا ۔ کیونکہ الی المسجد الاقصی وارد ہے ۔ مولوی صاحب نے کہا کہ آسمان پر جانا اسی آیت سے ثابت ہے کیونکہ " اقصی ،، کی ایک تفسیر " عرش ،، بھی ہے کیونکہ مسجد کے معنی ہیں ۔ محل طاعت اور عرش اعلی طاعت ہے ۔ اور با رکنا حولہ سے مراد روحانی برکت ہے ۔ چنانچہ و تری الملئکۃ حافین من حول العرش یسبحون بحمد ربھم سے ثابت ہے ۔ بس اتنے میں مان گیا حالانکہ شرح تہذیب پڑھا ہوا طالب علم بھی جانتا ہے