ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
پر جو اعتراض ہے کہ اس میں حدوث علم لازم آتا ہے اس لئے کہ جعل قبلہ حادث ہے اور علم جو اس پر مرتب ہو ظاہر ہے کہ وہ بھی حادث ہی ہو گا ـ بعض معقولین نے اس اعتراض کا ایک جواب دیا جو بالکل غلط ہے وہ یہ کہ مراد علم تفصیلی ہے وہ حادث ہے اور صفات میں سے نہیں اور یہ غلط اس واسطے ہے کہ یہ ایک اصطلاحی لفظ بمعنی معلومات ہے نہ کہ لغوی مصدر جس سے اشتقاق ہوتا ہے پس لنمعلم میں بمعنی علم تفصیلی لینے سے ایک تو اشتقاق لنعلم درست نہیں ہوتا ـ دوسرے اگر بتکلف اشتقاق کا دعوی کیا جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے تبدیل قبلہ اس لئے کیا تا کہ ہم ممکنات کے عین ہو جاویں کیونکہ تفصیلی معلومات ممکنہ کا عین ہوتا ہے اور بہترین جواب اس اعتراض کا قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتیؒ نے دیا ہے وہ یہ کہ حق تعالی کا علم واقع کے مطابق ہوتا ہے اور یہ مقدمہ ظاہر ہے اور دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ واقعات تین قسم کے ہوتے ہیں ـ ماضی مستقبل اور حال ـ پس اللہ تعالی جملہ واقعات کو مع ان کے زمانہ کے جانتے ہیں یعنی حق تعالی جملہ اشیاء کو کشف تام سے جانتے ہیں مع ان کے قیود واقعیہ کے مثلا جو چیزیں ماضی میں واقع ہیں ان کو اسی طرح جانتے ہیں کہ قد و قع اور جو مستقبل میں ہیں ان کو اس طرح جانتے ہیں کہ سیقع اور جب وہ ہو جاتا ہے تو پھر اس کو قد و قع کی قید سے جانتے ہیں اور یہ تغیر معلوم میں ہے عالم میں نہیں ـ پس تحویل قبلہ کے وقوع سے پہلے تو اس طرح جانتے تھے کہ فلاں فلاں اشخاص اسلام پر رہیں گے اور فلاں فلاں مرتد ہو جائیں گے ـ جب تحویل قبلہ ہو گئی تو بصورت ماضی جان لیا باقی انکشاف دونوں حالتوں میں تام اور کامل ہے اور یہی مراد معلوم ہوتی ہے مفسرین کے اس قول کی لنعلم علم ظہور ـ قطب تکوین کو اپنے عہدہ کا علم ضروری ہے احقر نے عرض کیا کہ کیا قطب تکوین کیلئے ضروری ہے کہ اس کو اپنے قطب ہونے کا علم ہو کیونکہ وہ ایک عہدہ ہے ـ فرمایا جیسا حسن میمندی جو سلطان محمود کا وزیر تھا اس کو تو اپنے وزیر ہونے کا علم تھا مگر ایاز کو اپنے محبوب ہونے کا علم ضروری نہیں کیونکہ محبوبیت کوئی عہدہ نہیں ایک قسم ہے قرب کی پس قطب الارشاد کیلئے یہ ضروری نہیں کہ اپنے قطب ہونے کو جان بھی لے ـ