ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
|
کریں ۔ دوم یہ کہ میت کا حق ہے ۔ سوم یہ کہ اس میں دنیا کا فائدہ ہے ۔ وہ حضرات اعمال کو خالص کرنا چاہتے تھے ۔ ایک صاحب نے سوال کیا کہ ایسے حال میں کیا کرنا چاہیے ۔ فرمایا نیت چونکہ اختیاری ہے اس کی اصلاح کر کے عمل میں لگے اور زیادہ کاوش نہ کرے ۔ اگر متوسطہ الحال کو ایسی بنائے تصحیح میں لگانا مامور بہ ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کوئی عمل ہو ہی نہ سکے گا ۔ وہ ہر عمل کی ابتدا میں حیران ہو جائے گا ۔ اور کوئی کام نہ کر سکے گا ۔ مولانا فرماتے ہیں ؎ گہ چنیں بنما ید و گہ ضد ایں جز کہ حیرانی نباشد کار دیں کامل کو تردد گا ہے گا ہے پیش آتا ہے ۔ اسے اصلاح کامل کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ اگر ہم اس درجہ کی بنائی اصلاح کے در پے ہو گئے تو عمل بالکل چھوڑ دیں گے ۔ شیخ خاموش بھی رہے تب بھی مرید کو نفع ہوتا ہے ایک مولوی صاحب نے دریافت کیا کہ شیخ کی صحبت میں اگر شیخ خاموش رہے تو فائدہ پہنچتا ہے ؟ فرمایا ہاں ۔ ایک تو اس لحاظ سے کہ شیخ کی حرکات کو دیکھ کر سبق حاصل ہوتا ہے ۔ دوسرے اس حدیث کے لحاظ سے : انا عند ظن عبدی بی ۔ ( میں ( یعنی حق تعالی ) اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوں جو وہ گمان میرے متعلق کرے ) ۔ اگر سالک کو یہ خیال ہوا کہ مجھ کو اس وقت بھی فائدہ پہنچتا ہے تو اس کو فائدہ پہنچے گا ۔ اور تیسرے توجہ اور تصرف سے بھی اگر وہ تصرف رکھتا ہو ۔ یہ مسمریزم کی طرح ہے ۔ احقر نے عرض کیا کہ حدیث : لا یشقی جلیسھم ( ان کے پاس بیٹھنے والا محروم نہیں ہوتا ) ۔ سے معلوم ہوتا ہے کہ فائدہ پہنچتا ہے ۔ فرمایا ۔ حدیث کے الفاظ گو عام ہیں اور اصول کا قاعدہ ہے کہ اعتبار عموم الفاظ کو ہے ۔ خصوص مورد کو نہیں ۔ جیسا آیت لعان میں خصوص مورد کو اعتبار نہیں کیا ۔ بلکہ عموم الفاظ کو اعتبار کیا ہے ۔ مگر میرے نزدیک اس مسئلہ اصولیہ میں ایک قید ہے ۔ وہ یہ کہ ایسے عموم کا اعتبار ہوتا ہے جو مراد متکلم سے خارج نہ ہو ۔ گو یہ قید صراحتہ مذکور نہیں ۔ لیکن مراد فقہاء کی یہ ہے اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے : لیس من بر الصیام فی السفر ( سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی کا کام نہیں ) ۔