ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
مدرسہ دیو بند میں اختلاف کا حل مدرسہ دیو بند کی شکایت کسی نے کی کہ آجکل اختلاف ہے ۔ فرمایا جب اور کوئی مدعی ( کام کرنے والا پیدا ہو تو اس سے کہہ دے کہ اچھا تو کر ۔ اس کی مثال تو فحش ہے مگر مولانا مثنوی میں لائے ہیں کہ ایک شخص بانسری بجا رہا تھا ۔ دبر کے راستہ سے ہوا نکل گئی ۔ تو بانسری منہ سے نکال کر دبر میں دے کر کہا لے تو بجا ۔ غرض یہ کہ نا اہل جب کام کرنے کا مدعی ہو تو اسے کرنے دے تا کہ اس کی قلعی کھل جائے ۔ اتفاق کا منشا تواضع ہے فرمایا لوگ اتفاق اتفاق کرتے ہیں ۔ حالانکہ اتفاق کا جو منشا ہے اس سے بالکل نا واقف ہیں ۔ اتفاق کا منشا تواضع ہے کیونکہ تواضع سے دوسرے کی رائے کا مان لینا ۔ پیدا ہوتا ہے اور تکبر منشا ہے اختلاف کا ۔ متکبر دوسرے کی رائے کو مان لینے کیلئے تیار نہیں ہوتا ۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج کل اتفاق نہیں ہوتا ۔ اور میں کہتا ہوں کہ اتفاق کے دو معنی ہیں ۔ ایک یہ کوشش کرنی کہ لوگ میرے متفق ہو جائیں یعنی میری رائے کی اطاعت کریں ۔ اور دوسرے یہ کہ میں کسی دوسرے کا مفق ہو جاؤں ۔ آج کل اتفاق پہلے معنی سے ہوتا ہے ۔ صوفیاء کی اصطلاحات بہت سی اصطلاحات سے مرکب ہیں فرمایا صوفیاء کی اصطلاح بہت سی اصطلاحات سے مرکب ہیں ۔ یہاں تک کہ عوام کی اصطلاحات بھی اس میں داخل ہیں ۔ مثلا کسی کا تعلق خاص ہو اس کو محاورات میں کہا جاتا ہے کہ بھلا آپ کوئی غیر ہیں تو مطلب یہ کہ میرا آپ سے خاص تعلق ہے ۔ اسی محاورہ کی بنا پر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ عین حق ہیں ۔ یا شیخ عین رسول ہیں ۔ اور فرمایا صوفیاء کی اصطلاح میں روح علیحدہ جوہر ہے اور قلب اور خفی اور اخفی یہ بھی جواہر ہیں اور نفس مادی چیز ہے یعنی جوہر ہے مگر صورت شخصیہ کی طرح حال ہے ۔ متکلمین تو مجرد کو خواص باری تعالی سے مانتے ہیں اور صوفیاء کے نزدیک یہ چیزیں بھی مجرد ہیں ۔ اور متکلمین تو فلاسفہ کا جواب دیتے ہیں اور عقول کو چونکہ فلاسفہ نے مجرد مانا ہے ۔ اس واسطے متکلمین نے ان کا رد کیا ۔ مگر صوفیاء