ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
بیعت کو نفع کی شرط سمجھنا بدعت ہے فرمایا کہ لوگوں کے عقائد بہت خراب ہو گئے ہیں بیعت کی نسبت تو یہ عقیدہ ہے کہ بدون اس کے فائدہ نہیں ہوتا ـ اور یہ عقیدہ بدعت ہے ـ حضورؐ کے زمانہ میں یہ عقیدہ نہ تھا ـ کوئی بیعت کو شرط نفع سمجھے یہ بھی بدعت ہے اور جاہل تو موثر سمجھتے ہیں ہ بھی بدعت ہے فرمایا کہ الحمد للہ اس بدعت کی اصلاح تو کر دی ہے ـ پھر فرمایا کہ اب تو بدعات بھی لوگوں کے نزدیک تین چار رہ گئی ہیں ـ فاتحہ ، نیاز ، عرس جس طرح گناہ بھی دو چار ہیں ، زنا چوری ، شراب خوری ، باقی سب جائز ہیں ـ بدعت کی دو قسم ہیں بریلوی اور ریلوی ـ فرمایا کہ سلف صحابہ اور تابعین میں بیعت کے وقت مصافحہ کا دستور تھا ـ بعد میں خلفاء کے زمانہ میں مشائخ نے بیعت کے وقت مصافحہ ترک کر دیا تھا ـ شبہ ہوتا تھا بغاوت کا ـ اس واسطے اس زمانہ میں بیعت کا ذکر اس طرح آتا ہے ـ صحب فلان فلانا ـ بایع فلان فلانا نہیں آتا ـ فرمایا کہ بیعت کی حقیقت مرید کی طرف سے التزام طاعت اور شیخ کی طرف سے التزام تعلیم ـ ہاتھ پر ہاتھ رکھنے میں کیا رکھا ہے ؟ اگر کسی کو شوق ہو تو یوں کرے کہ اعمال میں طاعت کرنی شروع کر دے اور جو بات دریافت طلب ہو دریافت کرے اور کبھی ملاقات کرے تو مصافحہ کرے ـ بس دونوں جمع ہو گئیں مصافحہ اور تعلیم ـ عرفی بیعت بھی ہو گئی ـ عید کا مصافحہ فرمایا عید کا مصافحہ میں تو کر بھی لیتا ہوں ـ مگر مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی ؒ نہیں فرماتے تھے وہ فرماتے تھے کہ بدعت ہے ـ میت کے کفن میں آج کل جائے نماز جز و کفن بن گئی ہے فرمایا میت کے کفن کے ساتھ جائے نماز کی رسم شاید اس واسطے مقرر ہوئی کہ اس بہانہ سے جنازہ پڑھا دیا کریں ـ اب یہ جز و کفن بن گیا ہے ـ پھر فرمایا کہ جنازہ پڑھوانے کے لئے یا لٹھ ہو یا لٹھا ـ چونکہ لٹھ نہیں ، اس واسطے لٹھا مقرر کر دیا ـ شروع شروع میں یہاں خانقاہ