ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
تھا ـ نو عمر ہی تھے جب مولانا کا انتقال طاعون میں ہوا تو اس نے گھر جانے کیلئے اسباب باندھا پھر بخار اور طاعون میں مبتلا ہو گیا ـ ان کی عجیب حالت تھی کسی نے ان سے کہا تم اچھے ہو جاؤ گے ـ کہا یوں مت کہو اب تو حق تعالی سے ملنے کو جی چاہتا ہے ـ ان کا ایک ہم سبق طاعون سے جلال آباد فوت ہو چکا تھا ـ مگر اس کے مرنے کی خبر اس کو نہ دی گئی تھی کہ ہراساں نہ ہو ـ مرنے کے وقت خود اس نے پوچھا کہ اس میرے ساتھی کا کیا حال ہے لوگوں نے کہا اچھا ہے کہا کیوں جھوٹ بولتے ہو وہ تو مر چکا ہے ـ میرے پاس کھڑا ہے ـ یہ عجیب بات ہے کہ اس نے عالم برزخ کی کائنات کو عالم ناسوت کی کائنات سے امتیاز کر لیا ـ اس کے جنازہ پر انوار اور کشش تھی جنازہ اس کا میں نے ہی پڑھایا تھا ـ مرنے کے وقت ایمان سلب نہیں ہوتا فرمایا مرنے کے وقت ایمان سلب نہیں ہوتا جیسے عوام میں مشہور ہے پہلے ہی سلب ہو چکتا ہے اور کسی فعل اختیاری سے سلب ہوتا ہے البتہ اس کا ظہور مرنے کے وقت ہوتا ہے کیونکہ وہ انکشاف کا وقت ہوتا ہے تو یوں سمجھا جاتا ہے کہ اب مرنے کے وقت سلب ہوا ہے اور بعض لوگوں کے اس وقت بھی ہوش و حواس درست ہوتے ہیں اور اس حالت میں شیطان ان کو بہکاتا ہے اور وہ باختیار خود بہکانے میں آ جاتے ہیں اسی واسطے دعا کی تعلیم فرمائی گئی اللھم لقنی حجۃ الایمان عند الممات ـ باقی بے ہوشی میں اگر کوئی کفری قول یا فعل صادر ہو جائے اس پر مواخذہ نہیں اور اسی سلسلہ میں یہ بھی فرمایا کہ ابلیس کو اضلال کی اسی درجہ کی عقل ہے جیسی حضرات ابنیاء علیھم السلام کو ہدایت کی عقل ہے ـ کیا مرنے کے وقت شیخ حاضر ہوتا ہے احقر نے عرض کیا کہ موت کے وقت کبھی شیخ بھی حاضر ہوتا ہے ـ فرمایا اس کی دو صورتیں ہیں کبھی واقعی شیخ ہوتا ہے اور یہ کرامت ہے اور اس کا وقوع شاذ و نادر ہوتا ہے اور کبھی حق تعالی کسی لطیفہ غیبیہ کو بشکل شیخ مشکل فرما دیتے ہیں کیونکہ وہ اسی شکل سے مانوس ہے تو اس کے ذریعہ سے اس کو حق کی طرف متوجہ کر دیا جاتا ہے ـ