ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
کا کوئی کام نہیں ہوتا ۔ خلاصہ یہ کہ شوق جو کہ داعی الی العمل ہے اس کا افراط ترک عمل کا ذریعہ بن جاتا ہے اور جس اثر یعنی عمل کے لئے یہ مطلوب ہے جب وہ اس پر مرتب نہ ہو گا بلکہ ترک عمل مرتب ہو گا تو یہ شوق مطلوب نہ رہے گا ۔ احادیث کی ان قیود پر نظر کرنے سے معلوم ہوا کہ کیفیات باطنیہ نہ ہی مطلوب بالذات ہیں اور نہ ہر درجہ ان کا مطلوب ہے اور یہ پتہ چلتا ہے ان کے آثار سے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آثار مقصود ہیں ۔ کیفیات جو منشاء ہیں وہ مقصود نہیں ( احقر نے ملفوظات کو اپنی استداد کے مطابق جمع کیا ۔ الفاظ غالبا احقر کے ہیں ۔ معنی جس قدر سمجھ سکا ان کو اپنے فائدہ کیلئے نقل کیا ۔ ملفوظ مذکور سن کر یہ شعر منہ سے نکلا ؎ نہ اشرف سا ملے گا اب کسی کو سخن فہم و زبان دان محمدؐ ہمارے اموال اور انفس اللہ تعالی کے ہیں فرمایا ابی عطا اسکندریؒ نے ان اللہ اشتری من المؤمنین انفسھم و اموالھم کے ذیل میں لکھا ہے کہ اس مضمون سے ایک جماعت کو تو خوشی ہوئی کہ اچھا سودا ہے اور وہ اہل ظاہر ہیں اور دوسری جماعت صفویا کی ہے وہ نہایت نادم ہوئے کہ حق تعالی نے انفس اور اموال کو ہماری طرف منسوب کر کے یہ ظاہر فرمایا کہ تم مدعی ہو کہ نفس اور مال تمہارا ہے اور ہمارا یہ کہ دعوی کرنا نہایت نا لائقی ہے ۔ کیونکہ حیقیقت میں ہمارے اموال اور انفس اللہ تعالی کے ہیں ۔ اس واسطے صوفیاء کو اس سے پریشانی ہوئی ۔ آ گے لطیفہ کے طور پر لکھا ہے کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ دو جنت ہیں ایک چاندی کی ۔ جو آیت کو سن کر خوش ہونے والوں کے ملے گی ۔ کیونکہ ان کا چہرہ اس آیت کو سن کر چمکا ۔ سفید ہوا ۔ ان کے مناسب چاندی ہے ۔ دوسری جنت وہ سونے کی ہے وہ ان کو ملے گی ۔ جو نادم ہوئے اور ان کے چہرے اس آیت کو سن کر زرد ہو گئے ۔ اس واسطے کہ یہ ان کے مناسب ہے ۔ طلباء دیو بند کا حضرت مولانا رفیع الدین صاحب مہتمم دیو بند کے ساتھ حضرت مجددؒ کے مزار پر مراقبہ فرمایا کہ مولانا رفیع الدین صاحبؒ مہتمم مدرسہ دیو بند کے ہمراہ مجدد صاحب