ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
جانب راجح معتبر ہے بلکہ آیت میں ظن سے مراد خیال بلا دلیل ہے اور مطلب یہ ہے کہ اس قسم کا ظن اثبات حق کیلئے کافی نہیں باقی جو ظن مستند الی الدلیل ہو وہ مثب حکم ظن ہو سکتا ہے جامع عرض کرتا ہے کہ حضرت نے اس آیت کے ذیل میں تفسیر بیان القرآن میں خوب تفصیل فرمائی ) ـ حد اوسط گرانے کے بعد نتیجہ صحیح نہیں نکلتا فرمایا آیتہ ،، ولو علم اللہ فیھم خیر الا سمعھم و لو اسمعھم لتو لوا و ھم معروضون ،، ـ کا سہولت کے ساتھ سمجھنا بھی فنون پر موقوف ہے کیونکہ ظاہرا اسعمھم حد اوسط ہے پھر بھی حد اوسط گرانے کے بعد نتیجہ صحیح نہیں نکلتا کیونکہ یہ نتیجہ ہو گا لو علم اللہ فیھم خیرا لتو لو اور اس کا فساد ظاہر ہے اور جواب بعنوان مطلق یہ ہے کہ یہ اسمعھم حد اوسط ہی نہیں کیونکہ مقدمہ اولی میں اسماع مع وجدان الخیر ہے جیسا لفظ چاہتا ہے اور دوسرے مقدمہ میں اسماع مع عدم وجدان الخیر ہے پس حد اوسط ہی مکرر نہیں تو نتیجہ کیسے نکلتا ـ علم مناظرہ ایک مسئلہ ( تفسیر ) فرمایا لا یسخر قوم من قوم عسی ان یکونوا خیرا منھم الآیۃ سے علم مناظرہ کا ایک مسئلہ مستنبط ہوتا ہے کہ مانع کو صرف منع کر دینا کافی ہے کیونکہ جو دوسرے کے ساتھ مسخرہ پن کرتا ہے وہ گویا اس کا مدعی ہے کہ یہ مسخور منہ دلیل ہے تو عسی ان یکونوا میں احتمال خیریت سے اس مستدل کی دلیل پر منع ہے ـ قرآن سمجھنا عمل کی برکت سے ہوتا ہے فرمایا اگر قرآن شریف میں موجودہ سیاست کو داخل کیا جائے تو پھر لازم آتا ہے قرآن مجید کو کفار نے جمہور علماء سے بلکہ صحابہ و تابعین سے زیادہ سمجھا ہے ـ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے ـ اصل یہ ہے کہ قرآن کا سمجھنا عمل کی برکت سے ہوتا ہے اس لئے ان حضرات نے زیادہ سمجھا ـ اسی سلسلہ میں فرمایا میرے خیال میں ہے کہ قالب تو ہو نیا اور قلب ہو پرانا ( یعنی عقائد