ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
ملفوظات حکیم الامت جلد ـ 26 ـ کاپی ـ 4 کا ترتب اسباب پر تین قسم کا ہے ایک کلی جیسے احراق کا ترتب نار پر ، دوسرے اکثری جیسا ترتب شفاء کا دوا پر ـ تیسرا اتفاقی جیسے شکار کا جال پر اور لعل کا لفظ انسان کے کلام میں وہاں آتا ہے جہاں کسی مسبب کا ترتب اپنے سبب پر اکثری ہو ـ یعنی اس سے قطع نظر کہ متکلم کو عواقب کا علم ہے یعنی صرف ذات سبب کی طرف نظر کر کے اس لفظ کا اطلاق کیا جائے ـ حضرت علی کو مشکل کشا کہنا کیسا ہے فرمایا حضرت علی کو مشکل کشاء بمعنی اشکال علمی کو حاصل کرنے والے کہنا جائز ہے مگر مشکلات تکوینیہ کے حل کے اعتبار سے جائز نہیں جیسے اہل بدعت کا محاورہ ہے لیکن پھر بھی لفظ چونکہ مبہم ہے اس لئے اس سے بچنا چاہیے ـ قرآن حکیم کا زیادہ طرز حاکمانہ ہی ہے فرمایا خواجہ عزیز الحسن صاحب نے سوال کیا تھا کہ عذاب ابدی اور رحمت حق کو جب موازنہ کر کے خیال کریں تو سمجھ میں نہیں آتا ـ اس وقت قلب میں یہ جواب پیدا ہوا کہ یہ استبعاد اپنے انفعال سے پیدا ہوتا ہے مثلا انسان جب اپنے دشمن کو سزا دیتا ہے تو اس کی حالت زار کو دیکھ کر رحم کرتا ہے یہ انفعال ہے اور اللہ تعالی انفعال سے پاک ہیں ـ ان کا عذاب اور قہر ارادی ہے اور اختیاری ہے جو ان کے کفر پر تجویذ کیا گیا ہے تو یہ لوگ خود اپنے ہاتھوں سے جہنم میں گرتے ہیں اور خلاف رحم تب ہوتا کہ جب پہلے سے پتہ نہ دیا ہوتا ـ باقی ایسے علوم میں زیادہ غور کرنا مناسب نہیں کیونکہ یہ علوم واجب کے ارادہ اور علم سےتعلق رکھتے ہیں اور ارادہ و علم صفات واجب میں سے ہے اور ان کا ادراک بالکنہ محال ہے اس لئے ایسے علوم کی حقیقت حاصل ہو نہیں سکتی اسی واسطے حضور پر نورؐ نے ایسے مسائل کی تحقیق سے منع فرما دیا ہے اور نہ ان کے سمجھنے کو کوئی قرب حق میں دخل ہے بلکہ اس کے عدم فہم میں قرب حق ہے کہ ہمارے روکنے سے ہمارا بندہ رک گیا ـ اور جن جن مسائل کی تحقیق مزید سے منع فرمایا ہے جیسے مسئلہ قدر وغیرہ وہ سب ایسے ہی ہیں گو ایسی تعلیمات حاکمانہ ہیں مگر قرآن کا طرز زیادہ حاکمانہ ہی ہے چنانچہ شیطان کے دلائل کے جواب میں