ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
کافی ہے ہر ہر قدم پر یہ ارادہ ضروری نہیں ورنہ چلنا ہی دشوار ہو جائے گا ـ ہاں اگر کسی دوسری طرف ایسی توجہ جو اس پہلی توجہ کی مضاد ہو پائی جائے تو پھر پہلی توجہ معدوم ہو جائے گی ـ حدیث میں کچھ اطلاقات فرمایا حدیث میں کچھ اطلاقات عوام کے محاورہ کے مطابق بھی ہیں الف حرف و لام حرف و میم حرف ـ کیونکہ عوام کلمہ کو یہی حرف ہی کہہ دیتے ہیں اس لئے ہر جگہ درسی اصطلاحات جاری نہ کرنا چاہیے جس پر شبہ ہو کہ الف تو مثلا اسم ہے حرف نہیں ہے البتہ مسمی اس کا بیشک حرف ہے ـ مگر وہ حدیث میں مراد نہیں کیونکہ مقطعات میں وہ تو نہیں پڑھا جاتا ـ تصور خطرات کے علاج میں جائز ہے کسی نے خط میں لکھا کہ اگر آپ کی صورت کا تصور کر لوں تو نماز میں جی لگتا ہے فرمایا جائز ہے دو شرط سے ـ ایک یہ کہ اعتقاد میں مجھے حاضر ناضر نہ سمجھے ـ دوسری شرط بھی توجہ الی اللہ ہونے کا ایک ذریعہ ہے اس سے توجہ اور یکسوئی الی اللہ ہو گی ـ پس مقصود کا مقدمہ ہے خود مقصود نہیں ـ صوفیاء کی کچھ خاص اصطلاحیں فرمایا صوفیہ کی اطلاح کچھ تو خاص ہیں اور کچھ دوسری اصطلاحات و اطلاقات سے حتی کہ کچھ عوام کے محاورات سے لی ہوئی ہیں مثلا یہ کہ مخلوق کو عین حق کہتے ہیں ـ یہ خاص اصطلاح پر ہے یہاں مطلب یہ ہے کہ تعلق خاص احتیاج و تابعیت کا ہے بس یہی مراد ہے صوفیہ کے اس قول کی اور صوفیہ کے قول کی اس توجیہ پر ایک قرینہ موجود ہے کیونکہ وہ واجب کو خلق سے مبائن بھی کہتے ہیں تو عین سے مراد معنی متعارف نہ ہوں گے اور اسی طرح متکلمین بھی دوسرے محاورات کا استعمال کرنے لگتے ہیں مثلا صفات واجب کو لا عین ولا غیر کہتے ہیں یہاں غیر کا معنی بے تعلق اور منفصل کے ہیں جیسا کہ آفتاب کی شعاع آفتاب کا غیر نہیں یعنی منفصل اور بے تعلق نہیں اور حکماء صفات واجب کو عین اصطلاح معقولین کہتے ہیں متکلمین نے اس لئے ان کا رد کیا کہ یہ در حقیقت صفات کی نفی ہے ـ اور قرآن کریم سے حسب معنی لغوی کہ وہ حقیقی معنی ہیں معلوم ہوتا ہے کہ صفات باری تعالی اس کی ذات پر زائد ہیں جیسے علیم و قدیر بمعنی