ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
مجتہد کا تمسک اس ضعیف راوی کی روایت پر ہو تو اس میں یہ کیا جائے گا کہ امام کی توثیق اس کے تمسک کیلئے کافی ہے دوسرے کی تضعیف اس پر حجت نہیں ـ اور اگر کسی حدیث کے مدلول میں کوئی احتمال ہمارے خلاف ہو تو تمسک میں مضر نہیں کیونکہ یہ خود ہمارا عقیدہ ہے کہ مسائل اجتہاد یہ ظنیہ ہو کہ دوسرے کا مذہب بھی صواب کا احتمال رکھتا ہے تو اس صورت میں دوسرا احتمال کیا مضر ہوا ـ چنانچہ مجھ سے اگر کوئی طالب علم یہ سوال کرتا تھا کہ اس حدیث میں تو دوسرا احتمال بھی ہے تو میں کہتا تھا پھر کیا ضرر ہوا ـ کیونکہ ہمارا عقیدہ یہی ہے مذھبنا صواب مع احتمال الخطاء و مذھب الغیر خطاء مع احتمال الصواب ـ حضرت حکیم الامتؒ کی تالیفات فرمایا اگر طریق ( سلوک ) سے کسی کو مناسبت نہ ہو اور میری تالیفات دیکھتا رہے اور کبھی کبھی پاس بیٹھتا رہے تو انشاء اللہ تعالی کافی ہے ـ گرو کو محققانہ جواب فرمایا ایک رئیس ہندو یہاں آیا اس کے ساتھ اس کا گرو بھی تھا اس نے سوال کیا کہ قرآن شریف آپکے نزدیک اللہ کا کلام ہے ؟ میں نے کہا ہاں ـ اس نے کہا کیا اللہ تعالی کی زبان ہے میں نے کہا نہیں ـ اس نے پھر کہا پھر کلام کیسے صادر ہو سکتا ہے ؟ میں نے کہا یہ مقدمہ ہی غلط ہے کہ کلام کا صدور بلا زبان نہیں ہو سکتا ـ دیکھئے انسان تو بواسطہ لسان کے گفتگو کرتا ہے مگر لسان بالذات متکلم ہے لسان کو تکلم کیلئے کسی دوسری لسان کی حاجت نہیں ـ اسی طرح انسان آنکھ سے دیکھتا ہے اور آنکھ خود بالذات دیکھنے والی ہے اس کو کسی دوسری آنکھ کی حاجت نہیں ـ اسی طرح انسان کان سے سنتا ہے ناک سے سونگھتا ہے مگر ان اعضاء کیلئے ان کے افعال میں دوسرے اعضاء کی حاجت نہیں یہ خود بلا واسطہ اور بالذات سنتے سونگھتے ہیں پس اگر اسی طرح اللہ تعالی بالذات متکلم ہوں اور ان کو لسان کی حاجت نہ ہو تو کیا استبعاد ہے ـ اس کو سن کر بہت محظوظ ہوا اور اپنے گرو سے کہنے لگا کہ دیکھا علم اسکو کہتے ہیں ـ