ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
|
عنی حالانکہ وہ مسلمان ہو چکے تھے جس کی خاصیت ہے الاسلام یھدم ما کان قلبہ ـ پس اس صورت میں تحقیق یہی ہے کہ یہ سب غیر اختیاری بات ہے تو میں کیسے دل ملاؤں مگر کئی سال کے بعد ان کو اس اعلان کی توفیق ہوئی اب میرا بھی دل صاف ہے ـ حضرت گنگوہیؒ کا ادب فرمایا جب میں کانپور سے تعلق چھوڑ کر وطن آیا تو میرے ذمہ ڈیڑھ سو روپیہ کے قریب قرضہ تھا ـ میں نے حضرت مولانا گنگوہیؒ سے عرض کیا کہ حضرت دعا فرماویں کہ قرض اتر جاوے ـ حضرت نے فرمایا اگر ارادہ ہو تو دیوبند ایک مدرس کی جگہ خالی ہے میں وہاں لکھ دوں میں نے عرض کیا کہ حضرت حاجی صاحب نے فرمایا تھا کہ جب کانپور سے تعلق چھوڑو تو پھر کسی جگہ ملازمت کا تعلق نہ کرنا لیکن اگر آپ فرماویں تو میں کر لوں گا اور یوں خیال کروں گا کہ یہ بھی حضرت حاجی صاحب کا ہی حکم ہے ـ گو یا ایک ہی ذات کے دو حکم ہیں مقدم منسوخ ہے اور موخر ناسخ ہے کیونکہ میں آپ کے حکم کو بھی بجائے حضرت کے حکم کے سمجھتا ہوں ( کاتب الحروف عرض کرتا ہے کہ یہ جواب محض علماء ظاہر اگر اپنے دلوں کو ٹٹولیں تو یہی فیصلہ کریں گے کہ ہر گز نہ دے سکتے 12) حضرت مولانا نے فرمایا نہیں نہیں جب حضرت نے ایسا فرما دیا ہے تو ہر گز اس کے خلاف نہ کریں باقی میں دعا کرتا ہوں ـ خوف کی حد فرمایا خوف ہر چند کہ مطلوب ہے مگر اس میں بھی ایک حد ہے یعنی خوف اتنا ہو جو معاصی سے روک دے ـ اسی طرح شوق کی بھی ایک حد ہے اور اس حد کے لئے دو قیدیں بتلائی گئی ہیں اول من غیر ضراء مضرۃ دوسری ولا فتنۃ مضلۃ ـ قید اول میں ضرر بدنی مراد ہے یعنی شوق اتنا زائد نہ ہو جس سے ضرر بدنی لاحق ہو جیسا مثلا غلبہ شوق سے بھوک نہ لگنا جس سے ںحیف ہو کر بے کار ہو جائے ـ دوسری قید میں ضرر دینی مراد ہے فتنہ مضلہ اس کا قرینہ ہے اس لئے کہ غلبہ شوق میں بعض اوقات بے تکلفی اور گستاخی پیدا ہو جاتی ہے جیسا بعض مجذوبین سے صدور ہو جاتا ہے سو گستاخی کی حد تک شوق بڑھ جانا ضرر دینی