ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
|
بسم اللہ الرحمن الرحیم آداب تلاوت فرمایا ، آداب تلاوت تو بہت ہیں مگر میں ایک ہی ادب بیان کرتا ہوں جس میں سب آ جائیں اور وہ یہ ہے کہ یوں خیال کرے کہ اللہ تعالی نے مجھ سے فرمائش فرمائی ہے کہ تم پڑھو ہم سنتے ہیں تو جس طرح کسی کو سنانے کے وقت خاص اہتمام سے سنوار سنوار کر پڑھتا ہے ویسا پڑھنا چاہئے اور اس پر یہ شبہ نہ کیا جائے کہ اس طرح سنانے کے وقت تو مخلوق کو خوش کرنا مقصود ہوتا ہے اور یہ ریاء تو تلاوت میں گویا معصیت سے اعانت لی گئی ـ جواب اس شبہ کا یہ ہے کہ مخلوق کو خوش کرنا دو طرح سے ہوتا ہے ـ ایک یہ کہ خوش ہو کر میرے معتقد ہو جائیں اور ان سے کچھ مجھ کو اس وجہ سے نفع پہنچنے تو یہ ریا ہے ـ دوسرے یہ کہ مسلمان کا جی خوش کرنا عبادت ہے ـ پس اگر اپنے پڑھنے میں مخلوق کی دوسری قسم کی خوشی ملحوظ رکھے تو جائز ہے بلکہ موجب اجر ہے جیسا حضرت ابو موسی اشعری کو حضورؐ نے فرمایا تھا کہ رات تم قرآن پڑھ رہے تھے اور میں سن رہا تھا ـ انہوں نے عرض کیا کہ اگر مجھ کو معلوم ہوتا کہ آپ سن رہے ہیں تو لحبرت تحبیرا یعنی میں اس کو اور بھی زیادہ سنوار کر پڑھتا ـ پس یہ پڑھنا ان کا جس کا عزم انہوں نے ظاہر کیا اگر ریاء منہی عنہ ہوتا تو حضورؐ ایسی قراءت سے منع فرما دیتے مگر آپ کا منع نہ فرمانا دلیل ہے کہ کسی کا دل خوش کرنے کو پڑھنا ریاء نہیں ـ تلاوت قرآن عزیز کا یہ ادب مجھ کو بہت عرصہ کے بعد معلوم ہوا ـ اب رہا یہ کہ اللہ تعالی نے کہاں فرمائش کی ہے کہ یہ تلاوت کرے اور میں سنوں اس کا جواب یہ ہے کہ جا بجا اس کے متعلق ارشاد فرمایا ہے ـ چنانچہ ارشاد ہے اتل ما اوحی الیک من الکتاب ـ اسی طرح حدیث شریف میں ہے ما اذن اللہ لشئی ما اذن لنبی یتغنی بالقرآن ـ اور ظاہر ہے کہ