ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
کہ بکاء نہ ہو تو تبا کی ہی اختیار کر لو ـ اسی طرح سے یہ عادت ہو گئی مگر جب اس عادت سے فساد ہونے لگا یعنی عوام کے عقیدہ میں اس کا اثر ہونے لگا تو فقہاء کرام ضرور منع فرماویں گے البتہ بعضے غیر مقتدا صوفیہ اباحۃ اصلیہ کی بناء پر اس کو جائز کہتے رہے اور فساد منضم کے رفع کرنے کی کوشش فرماتے رہے باقی رسم پرستوں کا ذکر نہیں وہ کسی شمار میں نہیں ـ اسباب عادیہ یقینیہ کا ترک توکل نہیں فرمایا اسباب ظنیہ کو چھوڑ دینا ـ یہ اصطلاحی توکل ہے مثلا نوکری زراعت وغیرہ چھوڑ دینا کیونکہ یہ اسباب صرف عادیہ اکثریہ ہیں ـ غالب عادۃ اللہ یہی جاری ہے کہ ان اسباب سے اکثری رزق ملتا ہے لیکن عادۃ شرط نہیں اور اسباب عادیہ یقینہ کو جو کہ عادۃ شرط ہوں ترک کرنا توکل نہیں ہے مثلا ہاتھوں سے کھانا کھانا ـ تو جو شخص یہ قصد کرے کہ میں اپنے ہاتھوں سے کھانا نہ کھاؤں گا وہ متوکل نہیں ـ ضروری کام میں لگانا فرمایا ایک شخص نے ریاست رامپور سے ایک تشتری کسی دوسرے کے ہاتھ ہدیۃ بھیجی ـ میں نے کسی عذر سے واپس کر دی ـ وہ لانے والا کہنے لگا میں کیا کروں ـ میں نے کہا یہ تو اس سے پوچھو جس نے بھیجی ہے کہ جب کہ وہ نہیں لیتا تو میں کیا کروں ـ اصل میں تو جواب اس سے لینا چاہئے مگر خیر تبرعا میں ہی جواب دے دیتا ہوں ـ وہ جواب یہ ہے کہ جہاں سے ہدیہ لائے ہو وہاں ہی لے جاؤ ـ اور میں ایسا معاملہ ایسوں کے ساتھ خصوصیت سے کرتا ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ توسط فی الہدایا بھی ایک بڑا مقصود ہے اور یہ سمجھ کر وہ لوگ کچھ کام نہیں کرتے کہ ہم نے بڑا کام تو کر ہی لیا ـ سو ان کو جب ان چیزوں سے روک دیا جاتا ہے اور جب یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا اور کوئی کام نہیں تو پھر ضروری کام میں لگتے ہیں اسی واسطے میں کہا کرتا ہوں کہ کسی کا سلام بھی نہ لاؤ ـ اس میں ان کا ہی حرج ہوتا ہے جو مذکور ہوا ـ مگر نا واقف آدمی میری نسبت سمجھتا ہے کہ سنت کے خلاف کر رہا ہے مگر جہاں یہ احتمال نہ ہو ان کے ساتھ اس طرح کا معاملہ نہیں کیا جاتا ـ