ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
|
معاملہ کرتے ہیں جو وفا دار باورچی اپنے مالک کے ساتھ جانثاری کرتا ہے پھر ان کو پست خیال کیوں کہا جاتا ہے ـ ترقی کو شرعا واجب فرمانا فرمایا لکھنؤ میں ایک ترقی یافتہ مجمع کی درخواست پر میرا وعظ ہوا ـ میں نے آیہ و لکل وجھۃ ھو مولیھا فاستبقوا الخیرات الآیۃ کا بیان کیا اور استباق کی حقیقت ترقی بتلا کر میں نے کہا صاحبو ! تم تو ترقی کو عقلا واجب کہتے ہو گے اور ہم شرعا واجب کہتے ہیں تو ہم ترقی کے زیادہ حامی ہوئے ـ کیونکہ ہم جب اس کو شرعا واجب کہتے ہیں تو اس کے ترک پر گناہ کے بھی قائل ہوں گے ـ غرض تم اور ہم اس پر متفق ہوئے کہ ترقی مطلوب ہے ـ اور اس پر بھی تم کو اتفاق کرنا پڑے گا ـ کہ ہر ترقی مطلوب نہیں کیونکہ اگر بدن پر مثلا ورم ہو جائے تو وہ بظاہر ترقی جسمانی ہے مگر تم بھی اس کا علاج کراتے پھرو گے ۤـ اسی طرح اگر سمن مفرط ہو جائے تو اسو کا بھی علاج کرانا ضروری سمجھو گے ـ پس اس سے صاف معلوم ہوا کہ ترقی وہ مقصود ہے جو نافع ہو اور جو ضار یعنی نقصان دہ ہو وہ مطلوب نہیں ـ پس اتنے حصہ میں تو ہمارا تمہارا اتفاق ہے اختلاف اگر ہے تو صرف اس امر میں ہے کہ کونسی ترقی نافع ہے کونسی مضر سو تم صرف دنیاوی ترقی کو نافع سمجھتے ہو اگرچہ آخرت میں مضر ہو اور ہم دینی ترقی کو مطلقا نافع سمجھتے ہیں اور دنیاوی ترقی کو قید عدم ضرر کے ساتھ ورنہ ترقی فی الورم و السمن کی طرح مضر سمجھتے ہیں ـ چنانچہ قرآن عزیز میں اسی نافع ترقی کا حکم فاستبقوا الخیرات میں فرمایا ہے کیونکہ خیر نافع کو کہتے ہیں باقی مولویوں پر جو شبہ کیا جاتا ہے کہ مولوی تو جائز دنیوی ترقی کا بھی وعظ نہیں کرتے تو اس کا جواب یہ ہے کہ دنیوی ترقی کا وعظ جب کہتے جبکہ تم لوگ اس کو نہ جانتے ہوتے تو وعظ سے اس کی ضرورت کو بتلایا جاتا ـ تم تو خود اس قدر زیادہ اس میں مشغول ہو کہ حدود سے بھی نکل گئے ہو ـ پھر ہمارے وعظ کی آپ کو اس ترقی کے متعلق کیا ضرورت رہ گئی بلکہ ضرورت اس کی ہے کہ تم جو حدود سے نکل گئے ہو اس سے تم کو روکا جائے اور قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اس مسئلہ کو نہایت تصریح کے ساتھ