ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
انگریزوں کی تہذیب خود ان کی نظر میں فرمایا میرے بھتیجے حامد علی علاج کرانے کیلئے منصوری گئے ۔ وہاں ایک امریکن انگریز تھا ۔ اس سے ملاقات ہوئی ۔ اس نے کہا کہ لندن والے انگریز کہتے ہیں کہ ابھی تک یہاں کی تہذیب ناقص ہے ۔ اور امریکہ کی کامل ۔ کیونکہ امریکہ میں ہر شخص اپنے ضروری کام اپنے ہاتھ سے کرتا ہے ۔ اور لندن میں یہ ابھی تک نہیں ہوا ۔ فرمایا ، سبحان اللہ ! امریکہ والوں نے یہ اب سمجھا اور حضورؑ نے کر کے بتلایا ۔ بازار سے سودا خرید کر لے آئے جوتا سی لیا ، کپڑا سی لیا ۔ اس انگریز نے حامد علی سے یہ بھی دریافت کیا کہ تمہارا کوئی رشتہ دار طالب علم ہے ؟ ( حضور نے طالب علم سے مراد اپنی طرف اشارہ کیا ) حامد علی نے کہا کہ ہاں ۔ اس انگریز نے دریافت کیا کہ وہ ان تحریکات میں شامل ہے یا نہیں ؟ اس نے کہا کہ ہم نے کہا کہ نہیں اور دل میں ہمیں خوشی ہوئی کہ اس میں انگریز کو بظاہر خوشی ہو گی ۔ اس انگریز نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ انگریزوں کا بہت بڑا دشمن ہے ۔ وجہ یہ کہ تحریکات کا چلنا تب ہو سکتا ہے جبکہ ہر شخص اپنے مذہب سے کچھ سرک جائے اور سب خلط ہو جاویں اور جو لوگ خلط ملط ہو جاویں اور مذہب کے پابند نہ رہیں ان لوگوں کا عیسائیت میں داخل ہونا سہل ہو جاتا ہے ۔ تو گویا جس قدر اہل تحریکات تھے یہ عیسائیت کے قریب جا رہے تھے اور اس نے اس کی مخالفت کی ۔ مولانا نے فرمایا کہ ہمارے خیال میں بھی یہ نہ تھا مگر الحمد للہ کہ حق تعالی ایسی بات کی توفیق عطا فرماتے ہیں جو حق ہوتی ہے ۔ حکایت مولانا فخر الدین صاحب دہلویؒ فرمایا ، مولانا فخر الدین صاحبؒ دہلوی کے ایک بزرگ تھے ۔ وہ ایک دفعہ اپنے معتقدین کے ساتھ جامع مسجد دہلی سے نماز ظہر سے فارغ ہو کر سیڑھیوں پر تشریف لے گئے ۔ اور دروازہ پر ایک بوڑھا شربت کا گلاس لئے کھڑا تھا ۔ اس بوڑھے نے کہا کہ بیٹا یہ شربت پی لو اور مولانا صاحب روزہ سے تھے ۔ مشہور تو یہ ہے کہ روزہ فرض تھا مگر میں کہتا ہوں