ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
|
منع کر دیا ہے ـ اور انسان کو چاہیے کہ عمل میں تو اشد پر عمل کرے یعنی خود نہ سنے ـ اور دوسرے لوگوں سے معاملہ کرنے میں ارفق پر عمل کرے سخت گیری نہ کرے ـ باقی آج کل جو کرتے اور سنتے ہیں یہ تو کسی طرح بھی درست نہیں جیسا کہ شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں سماع اے برادر بپرسی کہ چیست مگر مستمع را بد انم کہ کیست جیسے حضرت مولانا گنگوہیؒ سے کسی نے دریافت کیا کہ قبروں سے فیض ہوتا ہے یا نہیں ـ فرمایا کس کو ؟ اس سائل نے عرض کیا کہ مثلا مجھ کو ـ فرمایا کہ تم کو نہیں ہو گا مطلب یہ کہ اہل اللہ کو ہوتا ہے سبحان اللہ کیسا جواب دیا ـ حضرت حوا کی قبر پہاڑ ابو قبیس کے پاس ہے فرمایا حضرت حوا کی قبر مکہ میں " پہاڑ ابو قبیس ،، کے پاس ہے ـ جدہ میں نہیں ـ جدہ اصل عربی میں جدی ہے " طریق واسع فی الجبل ،، پہاڑ میں کشادہ راستہ کو کہتے ہیں ـ اس سے بعض نے یہ گھڑ لیا کہ حضرت حوا کی قبر جدہ میں ہے ـ ( عربی " جدہ کے معنی ہیں " وادی ،، اس لئے لوگوں نے اس سے یہ سمجھا ) ـ حکایت حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ فرمایا بعض لوگ سماع سے متاثر ہوتے ہیں مولانا محمد یعقوب صاحبؒ اجمیر شریف میں کہیں جا رہے تھے کہ وہاں دھان کوٹنے کی آواز کان میں پڑٰی ـ وہ کچھ ایسی متناسب تھی کہ مولانا فوارا گر پڑے ـ سماع کے منع ہونے کا ایک سبب فرمایا کانپور میں ایک شخص صاحب سماع تھے دوکاندار نہ تھے ان سے میں نے کہا کہ تم فن تصوف کے واقف تو ہو اس لئے تم سے مناظرہ علمی تو نہیں کرتا مگر ایک وجدانی بات تم سے دریافت کرتا ہوں کہ یہ بتاؤ کہ تصوف اور سلوک کی حقیقت کیا ہے ؟ انہوں نے کہا " مجاہدہ ،، یعنی مخالفت نفس ـ میں نے کہا کہ ایک مقدمہ تو یہ ہوا جو آپ نے بتایا اور دوسرا مقدمہ وجدانی ہے وہ یہ کہ آپ کا نفس سماع سے خوش ہوتا ہے یا نہیں ـ کہنے لگے کہ ہاں