ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
انی اجھز الجیش و انا فی الصلوۃ " میں لشکر کی تیاری کرتا ہوں نماز میں ہوتے ہوئے ،، یہ مطلب نہیں کہ قصدا میں یہ خیال لاتا ہوں ۔ مطلب یہ کہ آ جاتا ہے اور چونکہ ہے یہ دینی مشغلہ ۔ تو معلوم ہوا کہ نماز میں کسی دینی مشغلہ کا خیال منافی حضور نہیں ۔ احقر کاتب نے عرض کیا کہ میرے خیال میں حالت نماز میں یہ آتا ہے کہ یا اللہ رحم فرما ۔ تو فرمایا کوئی حرج نہیں ۔ یہ بھی احضار کے منافی نہیں ۔ فرمایا توجہ الی المذکور کو ریا الی الاذکار یا الی الافکار الدینیہ کوئی بھی احضار کے منافی نہیں ۔ ہاں کامل وہ احضار ہے جو الی المذکور کو ریا الی الذکر ہو ۔ احقر نے عرض کیا کہ سماع قرات میں احضار کی کیا صورت ہو گی ؟ فرمایا جہری صلوۃ میں الفاظ کو غور سے سننا ۔ معنی کی طرف جانا ۔ اور سری میں مذکور یا الفاظ خیالی کا احضار یا وہی کعبہ کی طرف توجہ اور صوفیاء نے یہی معنی کئے ۔ حضرت ابو ہریرہ کے قول کے کہ : اقرا فی نفسک یا فارسی ۔ اے فارسی اپنے دل میں پڑھ ،، اور فرمایا احضار کی ایک مثال مجھ کو یاد آئی بہت ہی مناسب ہے ۔ وہ یہ کہ مثلا قرآن کچا یاد ہو تو سوچ سوچ کر پڑھتا ہے بس اتنا سوچنا احضار کے لئے کافی ہے ۔ مباشرت اسباب کے بعد حال پیدا ہوتا ہے فرمایا حال تو واجب نہیں مگر مباشرت اسباب ( جن سے حال پیدا ہو ) واجب ہے ۔ حال کو واجب جو نہیں کہا تو اس معنی کر کہ خود غیر اختیاری ہے ۔ مگر حق تعالی کی عادت یہ ہے کہ مباشرت اسباب کے بعد حال پیدا فرما دیتے ہیں ۔ اس معنی کر کے حال واجب ہے بھی اور نہیں بھی جیسا مثلا ابصار غیر اختیاری ہے ۔ کیونکہ باوجود محاذات کے عدم ابصار غیر اختیاری ہے ۔ تو اس کی ضد ابصار بھی غیر اختیاری ہو گا ۔ کیونکہ غیر اختیاری کی ضد بھی غیر اختیاری ہو گی ۔ کیونکہ قدرت متعلق ہوتی ہے ضدین کے ساتھ ۔ مگر باوجود اس کے ابصار کو اختیاری کہتے ہیں ۔ کیونکہ اس کے اسباب مثلا فتح العین وغیرہ من المحاذات اختیاری ہیں ۔ اسی طرح حال ہے ۔