ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
یکسوئی پیدا نہیں ہوتی ـ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ تلاوت باوجودیکہ افضل ہے مگر صوفیہ اس کی تعلیم نہیں کرتے مگر یہ اعتراض بالکل بے موقع ہے کیونکہ ذکر کی تلقین تلاوت ہی کا مقدمہ ہے اس لئے کہ اس سے یکسوئی ہو کر تلاوت کامل ہونے لگتی ہے باقی زیادہ تر مقصود تلاوت ہی ہے یہ ایسا ہے جیسا کہ وضوء یا دیگر شرائط صلوۃ مقدم ہوتے ہیں نماز پر ـ یہی وجہ ہے کہ جب ایک خاص درجہ کی یکسوئی پیدا ہو جاتی ہے پھر زیادہ تر تلاوت ہی میں مشغول کر دیتے ہیں باقی غیر محققین کا ذکر نہیں ـ فاعل حقیقی صرف اللہ تعالی ہیں فرمایا ہر شخص خدا تعالی کا قائل ہے چاہے وہ اپنے قصد سے انکار ہی کرے کیونکہ کسی نہ کسی کو فاعل حقیقی مانے ہی گا اور فاعل حقیقی صرف اللہ تعالی ہیں ـ اس طرح سے بلا قصد اللہ تعالی کو مانتا ہے مگر غیر کو فاعل سمجھ گیا ہے ـ حدیث لا تسبوا الدھر فان اللہ ھو الدھر میں اسی طرف اشارہ ہے ـ یقین میں اثر فرمایا رنجیت سنگھ کی حکایت مشہور ہے کہ جب دریائے اٹک پر پہنچا تو آ گے پار ہونے کا اس وقت سامان نہ تھا ـ یعنی کشتی وغیرہ ) اس نے اسی طرح گھوڑا دریا میں ڈالدیا ـ کسی نے کہا کہ جناب یہ اٹک ہے رنجیت سنگھ نے فورا کہا کہ جس کے دل میں اٹک اس کے لئے اٹک ـ چونکہ اس کو بھروسہ کامل تھا پار ہو گیا ـ جب اہل باطل کے یقین میں یہ اثر ہے تو اہل حق کے یقین میں کیسا کچھ ہو گا ـ یقین کا مفہوم فرمایا صوفیہ کے نزدیک یقین کے معنی ہیں اعتقاد جازم مطابق للواقع مع غلبۃ الحال ـ اور اس تعریف پر آیت انما التوبہ علی اللہ للذین یعملون السوء بجھالۃ کی تفسیر آسان ہو جائے گی اس طرح سے کہ بجہالۃ قید واقعی ہو اور یہ جہل جس علم کا مقابل ہے اس کی یقین بالمعنی المذکور تفسیر ہو تو حاصل یہ ہو گا کہ گناہ جب ہو گا ایسا یقین نہ ہو نے ہو گا کیونکہ اس وقت غلبہ حاصل نہ ہو گا گو اعتقاد جازم ہو ـ اسی طرح حدیث لا یزنی الزانی