ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
|
سے مراد یہاں خاص وہ حسنات ہیں جن کو اعتکاف میں بیٹھنے کی وجہ سے ادا نہیں کر سکتا مثلا نماز جنازہ عیادت مریض و غیرہ ـ پس اگر معتکف کو ان کا ثواب نہ ملتا تو یہ حسرت ہوتی کہ اچھا اعتکاف کیا ایک عبادت کے سبب ہزاروں ثواب کی باتوں سے رہ گئے تو حق تعالی کی رحمت ہے کہ وعدہ فرما لیا کہ نہیں ان سب کا ثواب تم کو ملے گا کیونکہ نیت تو رفع موانع کی حالت میں عمل کرنے کی تھی اس واسطے ثواب مل گیا ـ اگر کوئی یہ کہے کہ حدیث میں حسنات تو مطعلق ہیں اس لئے یہ تخصیص کہ وہی حسنات مراد ہوں جن کو اعتکاف کی وجہ سے ادا نہیں کر سکا ٹھیک نہیں ـ میں کہتا ہوں کہ یہ بھی ممکن ہے مگر جو صورت میں نے بیان کی ہے وہ ذوق سے زیادہ قریب ہے گو حق تعالی کسی کے ذوق کے پابند نہیں اور اجتناب عن المعاصی کا ثواب ملنے میں بھی ایک قید سمجھا ہوں وہ یہ کہ جن معاصی کے ارتکاب سے بچنے کی نیت سے اعتکاف کیا خاص ان سے بچنے کا ثواب ملے گ ا کل معاصی سے بچنے کا ثواب مراد نہیں ـ وجہ یہ کہ معاصی تو لاکھوں کروڑوں ہیں مثلا ایک عورت سے زنا کرنا دوسری سے زنا کرنا الی مالا یقینا ہی ایک شخص کو قتل کرنا دوسرے کو قتل کرنا الی ما یقینا ہی اگر سب پر ثواب ملے تو چاہئے کہ ہر آن میں ہر شخص کو غیر متناہی ثواب ملا کرے اور یہ بہت ہی بعید ہے نیز اس کا کوئی قائل بھی نہیں اس سے معلوم ہوا کہ مطلق ترک معصیت موجب اجر نہیں بلکہ جو ترک بطور کف کے ہو اس پر اجر ملتا ہے ـ اور کف عن المعاصی کا وہی حاصل ہے کہ اس سے بچنے کی نیت ہو ـ پس اعتکاف کو جس عن المعاصی کا معدمہ بنایا ہے ان ہی معاصی سے کف پر ثواب ملے گا نہ کہ کل معاصی سے بچنے کا اور اگر کوئی معاصی اور حسنات دونوں میں تعمیم کی امید رکھے تو خدا تعالی کی رحمت میں کیا تنگی ہے اس امید پر معتکف کو لاکھوں گناہوں کے ترک کا اور لاکھوں حسنات کے مباشرت کا ثواب بدوں مباشرت عمل کے مل سکتا ہے ـ خلاصہ یہ کہ اقرب الی القواعد تو دونوں جگہ تقیید و تخصیص ہے لیکن اگر کوئی حسنات کو عموم پر رکھے اور ایسا ہی معاصی کو بھی اطلاق و عموم کے درجہ میں سمجھے تب بھی کوئی حرج نہیں پس نفی عموم سے غموم میں نہ پڑے ـ