ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
|
ہے ۔ مثلا خشیۃ اللہ یہ ایک کیفیت ہے اور اس کا ہر درجہ مطلوب نہیں بلکہ ایک درجہ اس کا مطوب ہے ۔ وہ یہ کہ خشیۃ اس درجہ کی ہو کہ گناہ اور عبد کے مابین حائل ہو جائے اور یہ حدیث میں موجود ہے " اللھم انی اسئالک خشیۃ تحول بینی و بین معاصیک " تحول کی قید خشیۃ کے اسی درجہ کے مطلوب ہونے کیلئے لگائی گئی ہے ۔ اور قرآن و حدیث چونکہ محاورات میں ہیں اس واسطے ان کی قیود میں مخالف معتبر ہو گا اور تحول کی قید سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خشیۃ خود مطلوب بالذات نہیں کیونکہ خشیۃ درجہ ذات میں تو پریشانی قلب کا ذریعہ ہے اور قلب مومن کو پریشانی میں ڈالنا مطلوب نہیں بلکہ خشیۃ اپنے اثر کے لحاظ سے مفید ہے وہ اثر کیا ہے ۔ یہ ہے " حیلولۃ بین العبد و المعصیت ،، اور اگر خشیۃ میں افراط ہو تو اس سے یاس غالب ہو جائے گا اور یاس کی حالت میں گناہ کی جرات ہو جائے گی تو خشیۃ جو ذریعہ تھی گناہ سے روکنے کی ۔ وہی ذریعہ ہو گئی گناہ کرنے کی ۔ اور جس اثر یعنی حیلولۃ کی وجہ سے خشیت مقصود ہے جب وہ نہ رہے گا تو خیست بھی مقصود نہ رہے گی ۔ الشئی اذا خلا عن الفائدہ انتفی ۔ اور اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ خشیۃ مطلوب بالذات نہیں کیونکہ مطلوب بالذات کا تو ہر درجہ مطلوب ہے مثلا ایمان کہ اس کا ہر درجہ مطلوب ہے ۔ اسی طرح شوق بھی ایک کیفیت ہے اور اس میں حضورؐ نے دو قیدیں لگا دی ہیں ۔ اللھم انی اسئالک شوقا الی لقائک من غیر ضراء مضرۃ و فتنۃ مضلۃ ۔ پہلے تو یہ خیال تھا کہ قید اول شکل میں قید کے ہے اور معنی میں خود مستقل ہے مگر یہ درست نہیں بلکہ شوق میں بھی ایک خاص درجہ مطلوب ہے جس میں یہ کیفیت ہو کہ اس میں افراط نہ ہو کیونکہ افراط کے وقت میں شوق بجائے مفید ہونے کے مضر ہو گا ۔ بدنی ضرر یہ ہو گا کہ مثلا بھوک نہ لگے گی ۔ مثلا کسی کو محبوب کا انتظار ہو تو تجربہ کر کے دیکھ لے کھانے کا مطلقا خیال نہ ہو گا اور جب کھانا نہ کھایا تو بدن جو کہ عناصر سے مرکب ہے ضیف ہو گا ۔ یہ تو قید اول سے اولا بدنی تکلیف ہوئی پھر اس ضعف سے طاعت میں کمی واقع ہوئی یہ ضرر دینی ہوا تبعا و ثانیا ۔ اور دوسری قید میں اولا دینی ضرر یہ ہے کہ افراط شوق سے ناز پیدا ہوتا ہے اور ناز سے بے ادبی ۔ اور بے ادبی سے بعد عن الحق اور دوسرا جز و دنیاوی ہے کہ افراط شوق سے حرارت بڑھتی ہے اور اس سے یبس اور یبس سے حواس مختل ہو کر دین