ملفوظات حکیم الامت جلد 26 - یونیکوڈ |
|
مگر ان کو کچھ نہ ہوا ـ اس کے بعد فرمایا کہ طاعون کو جو جہاد سے تشبیہ دی گئی ہے اس کی وجہ دو چار دن سے سمجھ میں آئی ہے ـ ایک حدیث میں فرار من الطاعون کو کالفرار من یوم الزحف قرار دیا ہے یعنی طاعون سے بھاگنا ایسا گناہ ہے جیسا جہاد سے بھاگ جانا ـ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ طاعون جہاد کی طرح ہے ـ دوسری حدیث یہ ہے کہ قیامت کے دن جو لوگ طاعون سے مرے ہیں ان کے متعلق نزاع ہو گا ـ جو لوگ جہاد میں شہید ہوئے ہیں وہ کہیں گے کہ یہ طاعون والے ہمارے بھائی ہیں ہمارے ساتھ رہیں ـ اور دوسرے لوگ جو اور بیماریوں میں مرے ہیں وہ کہیں گے کہ طاعون والے فراش پر مرے ہیں ـ ہماری طرح ہیں ـ اس واسطے ہمارے ساتھ ہونے چاہئیں ـ اس کے بعد ان کے زخم کا ملاحظہ کیا جائے گا ـ اور زخم مجاہدین کے زخم کی طرح ہوں گے ویسے ہی خوشبو دار ہوں گے جیسے شہدا کے زخم ہیں تو پھر وہ شہداء کے ساتھ ملا دیے جائیں گے ـ اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ طاعون والے مثل مجاہدین کے ہیں ـ اور طاعون کو جو جہاد سے تشبی دی گئی ہے تو وجہ تشبیہ سمجھنے سے پہلے یہ غور کیا جاوے کہ جہاد میں جو فرار سے منع فرمایا ہے تو اس کی وجہ کیا ہے ـ یعنی جب مسلمان اور کافر مساوی ہیں یا کافر مسلمانوں سے دو چند ہوں اور سامان وغیرہ بھی ہو تو اس صورت میں خواہ کسی کو یقین بھی ہو کہ کفار غالب ہو جائیں گے تو بھی بھاگ جانے کی اجازت نہیں دی حالانکہ عقل کا تقاضہ یہ ہے کہ جان بچانی فرض ہے تو اس صورت میں اجازت ہونی چاہیے تھی مگر شریعت نے اس صورت میں بھی اجازت نہیں دی ـ وجہ عدم اجازت کی یہ ہے کہ فرار میں کفار کو حوصلہ ہو جائے گا کہ یہ لوگ کچھ نہیں بے ہمت ہیں تو پھر بھگا دینے کا کفار کا حوصلہ ہو جائے گا اور ہمت بڑھ جائے گی ـ اگر مسلمان نہ بھاگے اور غالب ہو گئے یا سب مارے گئے تو دونوں صورتوں میں کفار کی ہمت ٹوٹ جائے گی اور حوصلہ پست ہو جائے گا کہ یہ بڑی سخت قوم ہے جان دے دینی ان کو آسان ہے مگر بھاگنا مشکل ہے تو غلبہ کی صورت میں اور مغلوبیت کی صورت میں ہیبت مسلمانوں کی ہو گی اور کفار کو آئندہ جنگ کا حوصلہ اور ہمت نہ ہو گی اس واسطے فرار جہاد سے منع فرمایا ـ جب جہاد سے فرار منع ہونے کی وجہ معلوم ہو گئی اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ طاعون جہاد کی طرح ہے تو اب