فقہ حنفی کے اصول و ضوابط مع احکام السنۃ و البدعۃ ۔ اضافہ شدہ جدید ایڈیشن |
|
محض مصلحتوں اور حکمتوں کی بنا پر کسی چیز کے جواز کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا آج کل بہت سے نو تعلیم یافتہ جب دیکھتے ہیں کہ علماء بیوع فاسدہ و معاملاتِ ربوا کو منع کرتے ہیں تو اعتراض کرتے ہیں ان مولویوں کو مصلحتِ زمانہ کی تو خبر ہے نہیں بس ہانک دیتے ہیں یہ بھی حرام وہ بھی حرام، آج کل مصلحت یہ ہے کہ ربوا کو حلال کہا جائے، دیکھو دوسری قوموں نے اس کی وجہ سے کس قدر ترقی کی ہے، میاں مولوی کو کیا خبر یہ تو اپنے مدرسے میں بیٹھ کر جو چاہے فتوی جاری کردیتے ہیں خبر نہیں کہ قوم پر کیا کیا مصائب نازل ہو رہے ہیں ، سو ان معاملات میں چونکہ مصلحت ہے اس لیے ان معاملات کو گناہ نہ کہنا چاہئے۔ یہ بھی اس قسم کی غلطی ہے میں کہتا ہوں کہ آج کل عقل پرستی کا بہت زور ہے، لیکن افسوس ہے کہ اس عقل کو دین کے اندر صرف نہیں کیا جاتا آپ مصلحت کی وجہ سے ایک شئے کو جائز کہتے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ چونکہ اس میں یہ مصلحت مضمر تھی اسی واسطے تو ضرورت ممانعت کی ہوئی، کیونکہ جس میں کوئی مصلحت نہ ہو اس کے منع کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، منع ہمیشہ اسی امر کو کیا جاتا ہے کہ جس میں کچھ مصلحت بھی ہو، جس کے سبب سے اس کے کرنے کی رغبت ہو مگر اس میں مفاسد دقیق ہوتے ہیں کہ ان مفاسد تک ہماری عقل نہیں پہنچتی، پس گناہ ایسا ہی ہے کہ جس میں کوئی مصلحت باعث علی الفعل ہوتی ہے اور وقوع اس کا ہمیشہ اسی مصلحت کی وجہ سے ہوتا ہے اور اگر یہ نہ ہوتا تو منع کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ اس کو تو ہر ذی ہوش شخص واجب الترک سمجھتا ہے، پس معلوم ہوا کہ مصلحت گناہ کے منافی نہیں ہے، چنانچہ فَاِثْمُہُمَا اَکْبَرُ مِنْ نَفْعِہِمَا (ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھا ہوا ہے) میں یہ تسلیم کرلیا ہے کہ